پاگلؔ عادل آبادی: اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

9.7.20

پاگلؔ عادل آبادی: اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں


پاگلؔ عادل آبادی: اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں 

 بہت کم لوگ اس حقیقیت سے واقف ہیں کہ پاگل عادل آبادی مرحوم کا تعلق سرزمینِ نظام آبادہی سے ہے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ عادل آباد منتقل ہوئے اور وہیں کے ہورکررہ گئے. میں نے کئی بار ان سے شکایت کی کہ آپ "نظام آبادی" ہوتے ہوئے عادل آباد کا نام روشن کررہے ہیں..........مسکرا کر جواب دیاکرتے تھے کہ شاعری کے ابتدائی دور میں عادل آباد میں قیام کی وجہ سے بے ساختہ اپنے آپ کو پاگل عادل آبادی کے طور پر پیش کیااور یہی نام و مقام شہرت کا سبب بن گیا ان کے بڑےفرزندوسیم رومانی سنجیدہ اور چھوٹے فرزند پاپڑؔعادل آبادی مزاحیہ شاعری کرتے ہیں جو ان دنوں دوبئی میں مقیم ہیں۔ وسیم رومانی کا ایک مجموعہ کلام "شمس النہار"بھی منظر عام پر آچکا ہے۔
پاگل عادل آبادی کا کلام نہایت شگفتہ اور منجھا ہے۔ سماج کی ناہمواریوں کووہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ بڑے ظریفانہ انداز میں اس کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔ کم وقت میں انہوں نےاپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام کے دلوں کو موہ لیاتھا۔ان کے ہرنئے کلام میں قہقہوں کا وافر مقدار میں ذخیرہ ہوتاتھا۔ مزاح صرف عیب جوئی، طعن و تشنیع کانام نہیں،بلکہ نامعقولیت اور ناہمواریوں کو ایسے دل پذیر انداز میں پیش کرنےکا نام ہے کہ سننے والا دل سے قائل ہو جائے اور یہ خوبی پاگل عادل آبادی کے قلم میں بدرجہ اتم موجودتھی۔ عمر میں بہت زیادہ فرق کے باوجود ناچیزسے بے تکلفی ذیادہ تھی۔ جب کبھی بھی نظام آباد تشریف لاتے احقر کو فون کرلیا کرتے تھے۔ ایک مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے جب میں نے انہیں ان الٖفاظ سے دعوتِ کلام دی کہ " ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر،ہے تو بڑا دانشور لیکن اپنے آپ کو "پاگل " کہلوانا پسند کرتا ہے۔"تو بے ساختہ ہنس پڑے تھے۔ شہرت وناموری کے باوجود انتہائی سادگی پسند تھے۔ ان کا کلام آج بھی بہت ذوق وشوق سے پڑھا اور سناجاتاہے ایسی مقبولیت بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے۔
 آہ!بےلوث محبتیں نچھاورکرنے والا، چھوٹی چھوٹی باتوں میں مزاح کا خوبصورت پہلوتلاش کرنے والا اب ہم میں نہیں رہا۔شایداسی وقت کے لئے محمدرفیع سوداؔ نے کیا خوب کہا ہے؎
 وے صورتیں   الٰہی  کس   ملک بستیاں  ہیں 
 اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
  (مجیدعارف)

***
 پاگل عادل آبادی 19 مئی 1941ء کو نظام آباد میں جناب ولی محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ احمدشریف نام رکھاگیا مگر یہ بعد میں ”پاگلؔ“ کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ ابتدائی تعلیم پھولا نگ مڈل اسکول میں ہوئی ۔ دھاروگلی ہائی اسکول نظام آباد سے میٹرک کیا اور پھر مدہول ضلع عادل آباد میں ٹیچرٹرینینگ حاصل کی ۔1964ء میں آپ کی پوسٹنگ بحیثیت مدرس پنجہ شاہ پرائمری اسکول عادل آباد پر ہوئی ۔ یہیں سے آپ عادل آباد کواپنا مستقر بنا لیا اور ہمیشہ کے لئے عادل آباد کے ہو گئے ۔ 1966ء کو پاگلؔ کی شادی ہوئی۔ آپ کو ابتداء ہی سے گھر کا ماحول بہت ہی پر سکون ملا ۔ آپ پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ ہوئے ۔
1969ء میں جب ملک میں غالب صدی تقاریب کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر شہر میں غالب صدی کے مشاعرے ہونے لگے چنانچہ عادل آباد میں بھی ایک مشاعره بزم تعَمیر ادب کے زیراہتمام منعقدہوا۔ اس بزم کے صدر رووح رواں عادل آباد کی ایک اہم شخصیت جناب اسماعیل قریشی مرحوم تھے ۔ پاگل نے اس مشاعرہ میں پہلی بار ایک شاعر کی حیثیت سے شریک ہوئے ۔ آپ نے پہلی غزل غالب کے مصرع ؎ 
" کہتے ہیں کہ غالب کا انداز بیاں اور "
پر کہی تھی جواس مشاعرہ کے لئے بطور طرح مصرع مقرر ہوا تھا۔ اس مصرعہ پر پاگل نے جوطری غزل کہی تھی اس کامطلع تھا ؎
 ممی کی زباں اور ہے ڈیڈی کی زباں اور
 پھر کیوں نہ  ہ واولاد  ک ا اندا ز بیاں اور
غزل بہت پسند کی گئی۔
1973ء میں حیدرآباد میں زندہ دلان حیدر آباد کے کل ہند مشاعرہ میں انہیں شرکت کا موقع ملا۔ پہلی بار اس مشاعرہ میں شریک ہو کر پاگل نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ اور مسلسل 30 سال تک پابندی سے زrندہ دلان حیدرآباد کے کل ہند مشاعروں میں شریک ہوئے اور مشاعر ے لوٹتے رہے۔ اور اسی دوران ان کا مجموعہ کلام "الم غلم" منظر عام پر آیا۔ الله تعالی پاگل پر ہر طرح سے مہربان رہا۔
 انھیں عزت، شہرت، اولا د ہرطرح کی نعمت سے مالا مال کیا۔ بحیثیت مزاحیہ شاعر انھیں بے مثال شہرت ملی، ملک ہی نہیں بیرون ملک میں ہونے والے مزاحیہ مشاعروں میں وہ بھی بلائے گئے ۔ دبئی، ابوظہبی ، شارجہ اور سعودی عرب کے مختلف شہروں کے مشاعروں میں انھوں نے کلام سنایا۔
 ملک کے تقریبا ہر ریڈیو اسٹیشن اور دور درشن کے مختلف چیانلس سے وہ سامعین کو نظر آئے ۔ دلی کے لال قلعہ کی فصیل پر یوم آزادی کے موقع پر منعقد ہونے والے کل ہند مشاعرہ میں انھیں کلام سنانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ کئی اردو اکیڈمیوں نے ان کی کتابوں کو انعامات سے نوازا تھا۔ کئی شہروں میں ان کے اعزاز میں مشاعرے منعقد ہوئے۔ انھیں یادگار تحائف پیش کئے گئے۔ 
 ان کی نظموں کو بطور فلمی گیت فلموں میں شامل کیا گیا ہے مشہور فلم پروڈیوسر اسماعیل شراف نے اپنی فلم ’گاڈ اینڈ گن "میں ان کی ایک مشہورغزل کو شامل کیا جس کے بول تھے؎
 نیتا وں کی ڈگر پر چمچودکھا د چل کے 
 یہ دیش ہے تمہارا کھا جاؤ اسےتل کے
 ان کی نظموں اور غزلوں کا مراٹھی، ہندی اور انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ بحیثیت صدر مدرس پاگل 35 سال تدریسی خدمات انجام دے کر 1999ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔ لیکن وظیفہ سے قبل انہیں چیف منسٹر آندھرا پردیش این جناردھن ریڈی کے ہاتھوں بیسٹ ٹیچر کا ریاستی ایوارڈ عطا کیاگیا۔ پاگلؔ کے درج ذیل مجموعے کلام شائع ہوکر کافی مقبولیت حاصل کرچکے ہیں:
 1. الم غلم
  2. چوں چوں کا مربہ
  3. کھٹے انگور
 4. گڑ بڑ گھوٹالا
 5. اوٹ پٹانگ
 6. کھسرپسر
 سعودی عرب کے ادبی دور ہ کے موقع پر پاگل صاحب نے عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی ۔ پاگل نے اپنا آخری مشاعرہ 30مئی 2002ء میں سدی پیٹ کی انجمن محبان اردو جس کے بانی جناب مسکن احمد ہیں کی سلور جوبلی تقریب کے موقع پر پڑھا۔
 باوجودسخت علالت مسکن احمد کی فرمائش پر پاگل نے اس مشاعرہ میں شرکت کی تھی ۔ واضح رہے کہ 25سال قبل بھی انجمن کے پہل مشاعرہ میں پاگل نے شرکت کی تھی اور آخری مشاعرہ میں بھی وہ شریک تھے۔ انتقال سے 7سال قبل انھیں دل کا دورہ پڑا تھا لیکن اپنے چاہنے والوں کی دعاؤں اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ مکمل صحتیاب ہو گئے تھے لیکن ذیابطیس کا مرض انھیں لاحق تھا اور اسی مریض نے انھیں دبوچ لیا اور 14 اگست 2007ء کو انہوں سے اس دنیائے فانی کو الوداع کہا۔ ہمیشہ اپنی زندگی میں سب کو ہنساتے رہنے والے پاگل اس دن سب کو روتے ہوئے چھوڑ گئے ؎
 باتیں ہیں ساری ہوش کی پاگلؔ ہے پھر بھی نام
 اللہ   رے   میرا  مقام   تعجب   کی   بات   ہے

****
مضمون نگار: وسیم رومانی

منتخب کلام ملاحظہ فرمائیں 

 ڈبوں کا دودھ پی کر بچے جو پل رہے ہیں
 وہ سب جوان ہو کر بڈھے نکل رہے ہیں 

  پیرو کاری چاپلوسی کالے دھن کا زور ہے
 کوئی رشوت خور ہے تو کوئی آدم خور ہے
 اک سے بڑھ کر ایک چالو ہے جہاں میں 
آج کل باپ انڈا چور ہے تو بیٹا مرغی چور ہے

  تھالی کا بن کے بیگن نانا پھسل رہے ہیں
 نانی کی سہیلیوں پہ نیت بدل رہے ہیں
 ان ہپیوں کو شاید یہ بھی خبر نہیں ہے
 زلفوں کے گھونسلوں میں بلبل بھی پل رہے ہیں
 دادا گری میں بابا کچھ کم نہیں تھے
 لیکن بابا سے بڑھ کے چالو بیٹے نکل رہے ہیں

  ادھر تو شہر کے گنجے میری تلاش میں ہیں
 ادھر تمام لفنگے مری تلاش میں ہیں 
 میں ان کا مال غبن کرکے جب سے بیٹھا ہوں
 یتیم خانے کے لونڈے مری تلاش میں ہیں
 ملا ہے نسخہ جوانی پلٹ کا جب سے مجھے
 تمہارے شہر کے بڈھے مری تلاش میں ہیں 
 میں جن کے واسطے جوتے چرا کے جیل گیا 
 وہ لے کے ہاتھ میں جوتے مری تلاش میں ہیں 
 دیا ہے نام کفن چور جب سے تم نے مجھے
 پرانی قبروں کے مردے مری تلاش میں ہیں
 پتے کی بات جو منہ سے نکل گئی پاگلؔ 
 تمام شہر کے پگلے مری تلاش میں ہیں 

نظم ’’ناکام عاشق کی بد دُعا‘‘ 

عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے 
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
 کھچڑی کی کبھی نہ یاد آئے جا تجھ کو چنے کی دال ملے
 عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
 ہر سال ہو تیری گود ہری بچے ہوں تجھے دو چار
ڈزن پنکچر ہو ترے ناز و نخرے ہو
 تیری اداؤں کا ایندھن تُو بال ہے ٹیبل ٹینس کا جا تجھ کو پتی فُٹ بال ملے
 غارت ہو کچن میں حُسن تیرا یہ روپ ہو تیرا باسی کڑھی
 چیخے تُوکُڑک مرغی کی طرح ہر ایک منٹ ہر 
ایک گھڑی تْو جھڑکیاں کھائے شوہر کی شوہر بھی گرو گھنٹال ملے
 عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
 گالوں میں ترے پڑ جائیں گڑھے چہرے پہ نکل آئے
 چیچک یہ ریشمی زلفیں جھڑ جائیں لگ جائے
 جوانی میں عینک سسرا بھی تجھے خوں خوار ملے 
اور ساس بڑی چنڈال ملے 
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے 
شوہر ہو ترا لنگڑا لولا ہو عقل سے پیدل چکنا گھڑا ہو
 کھال بھی اس کی گینڈے سی ڈامبر سے بھی رنگ پختہ ہو
 ذرا کشمیر کی تجھ کو خواہش تھی جا تجھ کو شہر بھوپال ملے
 عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
 شادی کا کیا مجھ سے وعدہ دھنوان سے شادی کر ڈالی
 رَن آؤٹ مجھے کروا ہی دیا اور سنچری اپنی بنوا لی
 دل تُو نے جو توڑا پاگلؔ کا جا تجھ کو کوئی قوال ملے

 پاگل ؔعادل آبادی کی چند یادگارتصویریں:

دائیں:ابوظہبی میں منعقدہ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے۔ 
بائیں:" انجمنِ ادب" ساوتھ سنٹرل ریلوے، سکندرآباد کی جانب سے منعقدہ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے۔ 

 دائیں: زندہ دلانِ ابو ظہبی کی جانب سے منعقدہ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے۔ 
بائیں:جگتیال میں منعقدہ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے۔تصویر میں جناب جمیلؔ نظام آبادی، جناب چکرؔ نظام آبادی (مرحوم) و دیگر شعراء بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 

 دائیں: میناریٹئز ویلفیرایمپلائزویلفئراسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے۔تصویر میں جناب 
محمدعلی شبیر،سابق وزیر، جناب صلاح الدین نیرؔودیگر شعراء دیکھے جاسکتے ہیں۔
بائیں: بزمِ شعر وادب ،عادل آباد کی جانب سے منعقدہ مشاعرہ میں کلام سناتے ہوئے۔ تصویر میں جناب جمیل ؔ نظام آبادی، 
ڈاکٹر ایم اے قدیر، جناب شفیق احمد (مرحوم) سابق ممبر اردواکیڈمی، جناب چکرؔنظام آبادی( مرحوم)ودیگر شعراء دیکھے جاسکتےہیں ۔

No comments:

Post a Comment