نظام آباد کا تغرافیہ
(انشائیہ)
تحریر:محمد ایوب فاروقی صابر(مرحوم)
پیشکش:ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی)
محمدایوب فاروقی صابر(1932-2018) شہر نظام آباد سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب و شاعر گزرے ہیں۔ بہ حیثیت ایمپلائمنٹ آفیسر سرکاری خدمات انجام دیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ”آخر شب کے ہمنشیں“ شائع ہوا۔نظام آباد کی ادبی سرگرمیوں سے وابستہ رہے۔ ابھی حال ہی میں12نومبر کو حیدرآباد میں ان کا انتقال ہوا۔ایوب فاروقی صابر ایک اچھے شاعر ہونے کے علاوہ ایک اچھے صحافی اور انشاءپرداز بھی تھے۔ چالیس سال قبل انہوں نے شہر نظام آباد کی یادوں کو دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہوئے ”نظام آباد کا تغرافیہ “ کے نام سے یہ مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں جو اشارے کئے گئے ہیں وہ ساری دنیا میں اہل نظام آباد کو آج بھی اپنے وطن عزیز کی یاد دلاتے ہیں۔ محمد ایوب فاروقی صابر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ مضمون شائع کیا جارہا ہے۔
****
کہا جاتا ہے کہ دکن کی تسخیر کے سلسلہ میں ایک مرتبہ شہنشاہ عالمگیر کا گذر ایک سنسان اور ویران آبادی سے ہوا۔شام ہوئی تو شہنشاہ نے اپنی فوجوں کو پڑاﺅ کا حکم دے دیا۔خیمے لگائے گئے اور شاہی خیمے میں ہندوستان کے عظیم المرتبت شہنشاہ استراحت فرما ہوئے۔پتہ نہیں شہنشاہ پر تھکن طاری تھی یا فضا کی سرور انگیزیت یا پھر اس مقام کی نحوست کہ زندگی میں پہلی بار شہنشاہ نماز فجر کے لیے بروقت بیدار نہ ہوسکے۔نماز قضاءہوئی اور فرمانِ شاہی جاری ہوا۔۔۔” ایں جائے بودن نیست“۔ شہر نظام آباد سے کوئی سولہ میل دور واقع اس علاقہ کو اسی روایت کے مطابق آگے چل کر” بودھن“ کے نام سے موسوم ہونا پڑا۔روایت یہ بھی ہے کہ شہنشاہ کے فرمان کے زیر اثر اس آبادی کے مکین لشکر شاہی کی روانگی کے بعد ایک جگہ جمع ہوئے اور اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ مبادا شہنشاہ کا گذر پھر ایک بار اس علاقے سے نہ ہو اور انہیں بدستور اسی بستی میں براجمان دیکھ کر ان کا فیض شاہی جوش میں نہ آجائے۔ پس سبھوں نے طے کیا کہ وہاں سے فی الفور نقل مقام کیا جائے۔چنانچہ لوگوں نے اپنے گھروں کو توڑ تاڑ کر معہ مال و اسباب و اہل و عیال اس منحوس مقام کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا اور چلتے چلاتے ٹھیک ایک شب کی مسافت پر ایک جگہ سستانے کے لیے رکے۔میر کاروان جو ایک صوفی منش بزرگ تھے چاہتے تھے کہ ایک نئی بستی بسانے کے لیے اور آگے کسی موزوں مقام کا انتخاب کیا جائے لیکن قافلہ میں شریک ایک نوجوان طالب علم کہ جس کا لازمی مضمون اردو تھا اور مضمون اختیاری فارسی بزرگ کی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے گویا ہوا” ایں دور است“۔ تذکرہ نویسیوں کا کہنا ہے کہ شہر نظام آباد کو اسی بنا پر حال حال تک” اندور“ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا۔تذکرہ نویسوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس علاقے میں بسنے والے کافی قدامت پسند اور شاہ پرست واقع ہوئے ہیں۔کیوں کہ جس شہر کو یہاں کے باشندوں نے برسہا برس کی انتھک کوششوں سے خود آباد کیا اس کا نام بعد ازاں”نظام آباد“ رکھا گیا۔یہی نہیں انہوں نے ایک تالاب بھی بنوایا جس کا نام” نظام ساگر“ رکھا گیا۔شکر سازی کے ایک عظیم کارخانے کی بنیاد ڈالی تو اسے” نظام شوگر فیکٹری“ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے اور تو اور یہاں لوگ جنتریاں بھی چھپواتے ہیں تو اسے ”نظام الاوقات“ کا نام دیتے ہیں۔
گرما میں یہ مقام سطح سمندر سے کافی بلند ہوجاتا ہے اور سورج سے بے انتہا نزدیک ۔برسات میں برسات اس دھوم کی ہوتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے دراصل یہی علاقہ سطح سمندر ہے۔ظاہر ہے موسم کے ایسے شدید طوفانوں کا مقابلہ کرتے لوگ کتنے جری کتنے باہمت اور کتنے سخت جان نہ ہوتے ہوں گے۔ سطح سمندر سے اس شہر کی بلندی کا حال دراصل ہم پر حال حال میں کھلا گزشتہ عید کے موقع پر ہم اتفاقاً خوشی خوشی عید گاہ گئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ نماز عید سے قبل چندوں کی اپیلوں کے درمیان ایک صاحب تقریر کرنے کھڑے ہوئے جب وہ ممبر کی پہلی پائدان پر کھڑے تھے انہوں نے فرمایا میں یہاں سے دیکھ رہا ہوں ابھی لوگ کنجر سے‘ارسہ پلی سے‘بور گاﺅں سے نماز عید کی ادائیگی کے لیے جوق در جوق چلے آرہے ہیں اس کے بعد انہوں نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی سے خیال آرائی فرمائی اور بے خیالی کے عالم میں ممبر کی دوسری پائدان پر چڑھ گئے اور عوام کو سامراج کی ریشہ دوانیوں سے خبردار کرتے ہوئے انکشاف کیا” میں دیکھ رہا ہوں آسام سے لے کر کشمیر تک عوم بےدارہوگئے ہیں۔میں دیکھ رہاہوں کے گنگا کے زرخیر میدانوں سے گیہوں کی بالیاں ہمیں للکار للکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم کو ایک نہ ایک دن غیروں کے وسائل سے چھٹکارا پانا ہی پڑے گا۔ اس کے بعد فاضل مقرر نے فلسطینی عربوں کی جد وجہد میں دنیائے اسلام کی بھرپور تائید کا یقین دلاتے ہوئے ممبر کی تیسری پائدان پر جست لگائی۔ اور اس بات کا حیرت انگیز انکشاف کیا کہ۔۔۔ یہاں سے مجھے نیل کا ٹھاٹھیں مارتا دریا صاف دکھائی دے رہا ہے۔۔ اس دن سے ہمارا شبہ یقین کی حدوں کو چھونے لگا ہے کہ ہو نہ ہو نظام آباد سطح سمندر سے کافی بلندی پر واقع ہے۔
رہ گیا اس شہر کا محل وقوع یا اس کے حدود اربعہ تو ہم آپ سے عرض کردیں کہ زمانہ طالب علمی سے ہی تاریخ اور جغرافیہ ہمارے کمزور مضامین رہے ہیں۔نہ ہمیںابن بطوطہ کی طرح سیر و سیاحت کا شوق ہے کہ شہر شہر گھومیں اور شادیاں رچاتے پھریں۔نہ ہمیں چاولوں کی اسمگلنگ سے دلچسپی ہے کہ اچھی خاصی جان کو جوکھم میں ڈال کر بارڈر کا نظارہ کر آئیں۔ہاں اتناہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ شہر نظام آباد کے شمال میں ہی کہیں بحرمنجمد شمالی ضرور واقع ہے اور جنوب میں بحر منجمد جنوبی۔مغرب میں سورج کو ڈوبتے ہوئے تو آپ ہم سبھی روزانہ دیکھتے ہیں۔رہ گئی مشرق سے سورج نکلنے والی بات تو اس بارے میں پورے وثوق کے ساتھ ہم آپ کو اسی وقت بتا سکتے ہیں کہ جب تک کسی روز سویرے بے دار ہوکر خود اس امر کی تصدیق نہ کر لیں ۔وائے افسوس اس ملک کے نوجوانوں کی سحر خیزی کی توفیق پھر بھی نہ ہوئی حالانکہ اقبال بار بار تلقین کرتے رہے مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ محلوں کے نام رکھنے کے سلسلے میں یہاں کے لوگ حیدرآبادیوں کی طرح قنوطی نہیں ہیں جہاں زندگی سے بھر پور انسانو ںکی آبادیوں کو قبروں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے مثلاً کالی قبر‘گھوڑے کی قبر وغیرہ۔محلوں کے نام رکھتے ہوئے یہاں لوگ جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کرنے کے زیادہ قائل ہیں۔مثلاً کہیں املی کے دو درخت دیکھے نام پڑ گیا”املی محل“درخت ببول کے تھے لہذا اس محلہ کا نام پڑ گیا”ببول طرفہ“۔برہمنوں کی گلی برہمن واڑی کہلائی۔شیخوں نے شیخی بگھارنے میں مستعدی دکھائی۔ محلہ ” مستعید پورہ“ کہلایا۔کسی گھر سے فاختے اڑاتے دیکھے گئے تو سارے محلہ کو ” خلیل واڑی“ کے نام سے مشہور کردیا گیا۔ میونسپلٹی نے محلوں اور سڑکوں کے نئے نام رکھے۔تختیاں آویزاں کی گئیں۔ لیکن سارے جتن بے کار ثابت ہوئے۔ روزمرہ”محاوروں“ کو کب اپنے اوپر حاوی ہونے دیتا ہے۔روزمرہ کی ضرورتوں سے تنگ آکر محاورے بگاڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔ جیسے دیڑھ اینٹ کی مسجد کی جگہ لوگوں نے دیڑھ دیڑھ فٹ کے کنویں کھود ڈالے۔سڑکوں پر گلیوں میں جا بجا ہم نے ان دیڑھ فٹ کے کنوﺅںکے کنارے گھڑوں اور بالٹیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھی ہیں۔قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ عوام نے کنوﺅں اور میونسپل نلوں کو آپس میں ضرب دے کر قدیم و جدید کے سنگم کا ایسا نیا شاہکار ایجاد کیا ہے۔
یہاں کے لوگ اور شہروں کے مقابلے میں اسپورٹس مین زیادہ مشہور ہیں۔عرصہ پہلے یہاں گاندھی میموریل اوپن ٹو آل بڑی دھوم دھام سے منعقد کئے جاتے تھے جس میںحصہ لینے دور دور سے ٹیمیں آتی تھیں۔جب قومی سطح پر گاندھی جی کو بھلایا جانے لگا اور قومی زندگی میں گاندھی جی کی تعلیمات کو فراموش کیا جانے لگا تو لوگوں نے سوچا باہر سے ٹیموں کو بلانے اور ان کی مہمانداری میں زیر بار ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے بعد عوامی سطح پر اوپن ٹو آل ٹورنامنٹ ہونے لگے جن کو بعض کوتاہ بینوں نے فسادات کا نام بھی دیا۔لیکن جب سے شکر کنٹرول سے ملنے لگی ہے اور ملک بوتھوں سے دودھ‘عوام پھر ایک بار شیر و شکر ہوگئے ہیں۔اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔اور یہ بھی لکھتا ہے کہ
ع وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
نظام آباد شہر نگاراں حیدرآباد سے کوئی ایک سو میل کی دوری پر واقع ہے ۔مہاراشٹرا کے لیے لوگ اسی شہر سے ہو کر گزرتے ہیں۔لیکن حیدرآباد کے راستے اس شہر تک کلچر کم اور دیگری کلچر زیادہ آیا ہے۔یہاں کی زمینیں سونا اگلتی ہیں۔سونا روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے اور بالیدگی فارغ البالی کو جنم دیتی ہے۔فراقت اور تن آسانی کے باعث آگے نکلی ہوئی توندیں تہواروں اور عید وں کے مواقع پر گلے ملنے والوں کو کافی فرحت پہونچاتی ہیں۔اس علاقے کے باشندوں کی اکثریت کی گذر بسر کھیتی باڑی پر ہے کچھ لوگ پڑھ لکھ بھی گئے ہیں۔بڑے ہو کر اپنی اس غلطی پر خفت بھی اٹھاتے ہیں اسی لئے پڑھے لکھے نوجوان سیٹھوں ساہوکاروں کے گھروں میں بار پانے شرف دامادی تک قبول کرنے آمادہ رہتے ہیں۔جو اس میں کامیاب رہتے ہیں پھر پچھتاتے ہیں ۔اس شہر کے پڑھے لکھے لوگوں میں ان دنوں سیاست اور صحافت کے پیشے کافی مقبول ہیں۔خدا جھوٹ نہ بلوائے تو شہر کی ہر گلی میں دو چار گھروں پر ورزناموں‘ہفتہ واروں‘یا ماہناموں کے بورڈ نظر آئیں گے۔ہفتہ وار اخباروں میں سے اکثر اخبار زیور طباعت سے آراستہ ہوکر طباعت کی خوبیوں سے مزین ہو کر بہ پابندی وقت شائع ہوتے ہیں۔
پیداوار میں چاول کی کاشت تو ہوتی ہے۔اس کی نکاسی بھی آج کل فن لطیفہ کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔جیسا کہ خاصہ ہے اس فن کی قدر اندرون ضلع نہیں کی جاتی اسی لیے ناقدری کے شکار یہ فن کار مہاراشٹرا کے متصلہ علاقوں سے اپنے فن کی داد وصول کرتے ہیں اور منہ مانگا انعام پاتے ہیں۔یہاں کی دوسری اہم کاشت گنے کی ہے جو میٹھا ہوتا ہے۔اور جڑ پیڑ سمیت کھایا جاتا ہے۔خام پیداوار خام خیالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے صنعتی میدان میں شکر سازی کی صنعت کے بعد یہاں صنعت لف و نشر کافی مقبول ہے۔زائد از نصاب سرگرمیوں میں یہاں کی ”صدارتیں“ کافی مشہور ہیں۔مشاعروں اور ادبی جلسوں کی صدارتیں تو عارضی شئے ہیں۔ لیکن ادبی انجمنوں کی صدارتوں کے باب میں بعض اوقات نوبت رسہ کشی تک جا پہونچتی ہے۔اس سے بالعموم لوگوں کی صحت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ ہم نے دانستہ طور پر بعض اور اہم صدارتوں کا تذکرہ بے جا سمجھا کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کل کلاں ایسی ہی کسی صدارت کو عوام کے بے حد اصرار پر خود ہمیں بھی قبول نہ کرنا پڑے۔۔۔۔۔
یہاں کے صاحب استطاعت لوگ بڑے مخیر واقع ہوئے ہیں۔ باہر والوں کا کوئی کام ہو یہ لوگ دامے درمے سخنے ضرورت مندوں کی اعانت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ اور کثیر مالی امداد سے نوازنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔باہر سے آئے ہوئے علمی درسگاہوں کے علمائ‘ ہائی اسکولوں کی انتظامیہ کے سربراہ‘اکالجوں کے پرنسپل ہرسال اس شہر سے فیض یاب ہوتے دیکھے گئے ۔ چہ جائیکہ خود اس شہر کا کوئی مدرسہ مالی وسائل کی بناءپر ساتویں درجے سے آگے نہ بڑھ سکا ہو۔اپنے نفس کو مار کر دوسروں کی احتیاج پوری کرنے کا ظرف ہر کسی کے بس کا تو نہیں۔اس اعتبار سے یہ شہر مالی حالتوں سے بھرا پڑا ہے۔
آزادی کے بعد ہندوستان کے اور علاقوں کی طرح نظام آباد میں بھی زبان اردو کی بقاءاور اس کی ترقی و ترویج کے لیے سالہا سال سے کوششیں جاری ہیں۔ ادبی انجمنوں کی طرف سے مشاعروں اور ادبی جلسوں کے انعقاد کا بڑے خلوص سے اہتمام ہوتا ہے۔اوروں کی طرح ہمیں بھی اس بات کا دکھ ہے کہ گو مشاعرے آج بھی ہوتے ہیں اور ان میں ادب نواز اور اہل ذوق شائقین کرام اس قدر کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں کہ بشمول شعراء”دس بائی دس فیٹ“ کے وسیع و عریض ہال سامعین سے کھچا کھچ بھر جاتے ہیں۔مگر ایسے میں خوش ذوق سامعین کو ہوٹنگ کرنے کے آزادانہ موقع بہم نہیں رہتے۔اسی لیے عوام کا مدت مدید سے شدید تقاضہ ہے کہ شہر میں تہذیبی سرگرمیوں کے احیاءکے لیے ایک عدد ہال ضرور تعمیر کیا جائے۔یہ تقاضہ کچھ اتنا نیا بھی نہیں دکھائی دیتا۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ اردو ہال بس اب تعمیر ہوا اور اب تعمیر ہوا۔اس اثناءمیں الجیریا آزاد ہوا۔اسرائیل کی نوزائیدہ مملکت وجود میں آگئی‘کوہ پیما”ایورسٹ“ جیسی بلند چوٹی پر چڑھ گئے۔امریکہ نے چین کو تسلیم کرلیا۔لیکن وائے حسرتا اردو ہال کا حال جوں کو توں رہا۔گزشتہ کئی برسوں سے شہر کی ادبی انجمنیں اس تاریخی تحقیق و تجسس میں لگی ہوئی ہیں کہ پتہ تو چلائیں کہ آخر اردو ہال کی تعمیر کا نادر خیال سب سے پہلے سوجھا کسے تھاا۔اب سنا ہے اس تاریخی عظمت کے حامل تعمیری منصوبے کو انتہائی تیزی سے روبہ عمل لایا جانے والا ہے۔ہمیں اردو کے مستقبل یا اردو حال سے کوئی ایسی دلچسپی تو نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس چکر میں مستقبل کا مورخ آنے والی نسلوں کے مطالعے کے لیے تاریخ کے صفحات پر تیسری جنگ عظیم کا ذکر پہلے کرے گا یا اس شہر میں اردو ہال کی تعمیر کا۔
ہر صبح تجھے جی سے بھلانے کا وعدہ ہر شام مکر جاتے ہیں معلوم نہیں کیوں؟
نظام آباد کی کن کن نوادرات کا ذکر کیا جائے۔عوامی پلان کا کہ جس کے تحت لوگ مکان پہلے بناتے ہیں نقشے بعد میں کھنچواتے ہیں۔اور اجازت کے آخر میں طلب گار ہوتے ہیں۔شہر میں مکانات کی قلت کا کہ مکان کی تلاش کرتے کرتے لوگ یا تو اس دار فانی سے ہی کوچ کرجاتے ہیں ۔طلباءکے روز افزوں گرتے ہوئے تعلیمی معیار کا کہ جس کی بدولت ہر سال نتائج کا فیصد نقطہ انجماد سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔صفحات کم ہیں اور باتیں ہزار۔ پھر بھی جب کبھی برسات ہوتی ہے تو بارش کی ہلکی سی پھوار کے بعد یہاں کی مٹی سے اٹھنے والی سوندھی خوشبو ذہن کے نہاں خانوں میں در آتی ہے۔پیار محبت امن اور آشتی کے اس شہر میں سماجی رشتوں کے بندھنوں میں بندھے سینکڑوں ہزاروں عوام کو بہتر اور تابناک مستقبل کی طرف رواں دواں دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ اچھائیوں ہی میں نہیں کوتاہیوں میں بھی حسن ہوتا ہے اور وطن عزیز پر حسن خیال نچھاور کرتے ہوئے بے اختیار حالی کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے ۔
تیری ایک مشت خاک کے بدلے لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے
کچھ ایسے الفاظ ہے کو دوسرے سے ملے ہیں جس کی بناء پر پڑھ نے میں ذرا پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ اگر نئے سرے سے ترمیم کردی جائے تو قارئین کے لیے آسانی ہوجائےگی
ReplyDeleteجی ۔۔ بہت شکریہ محترم
ReplyDelete