ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
انتظامی کمیٹی برائے مساجد لمحہ فکر!!
**** ازقلم :مجیدعارف نظام آبادی*** ریاض، سعودی عرب
آج کا مسلمان مسجدوں کی ہمہ گیر حیثیت سےواقف نہیں ۔یہ اسلام کی بلند و بالا عمارتیں اپنی شناخت کی تجدید کے لئے بے چین اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے منتظرہیں ۔ہماری مسجدوں کو وہی مقام و مرتبہ ملنا چاہئے جو خیر القرون کے زمانے میں انہیں حاصل تھا۔ سیرت النبی کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مساجد مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے مرکز رہے تھے۔ عام امور کی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ مسجدیں مدرسہ اور درسگاہ بھی تھیں، اس میں تمام اہم امور معاشرتی،اصلاحی، قومی معاملات بھی طے کیے جاتےتھے۔ سارے جنگی و دفاعی صلاح و مشورے بھی وہیں ہوتے تھے۔ مسجد مسلمانوں کا دارالشوریٰ، علم وفکر کی جامعہ، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے وفود کی اجتماع گاہ اور مہمان خانہ بھی تھیں۔ مقدمات، تنازعات کا فیصلہ اور تصفیہ بھی یہاں ہوتا تھا۔اصلاح معاشرہ کے روشن چراغ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے عمبردار تھیں ، مسلمانوں کی عدالتیں بھی یہی مسجدیں تھیں۔ مسجد کی اس ہمہ گیر حیثیت سے غافل آج کامسلمان، صرف عبادات اور مخصوص موقع پرچراغاں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔مسجدوں نے اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کرنے میں موثر رول ادا کیا وہیں مسلمانوں کی تربیت و تنظیم میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ مسجد کو اصلاح معاشرہ کا مرکز،علم وتربیت کا محور بنانے کی وجہ سے نہ صرف صالح معاشرہ کا وجود عمل میں آیا تھا بلکہ اس کی فکر سے جنم لینے والی انقلابی شخصیات، کو آج بھی دنیا بھر کے مفکرین حیرت و تعجب سے دیکھتے ہیں۔قرآن وہ پہلا معاشرتی اور ثقافتی قانون نظام ہے، جس کی روشنی میں حضور اکرمؐ نے مدینہ کا پہلا عملی اور اصلاحی نظام معاشرت قائم فرمایا۔ قرآن کا قانون اور اس کی اساس پر معاشرے و ثقافت کا عملی نظام جو مدینہ میں پہلی بار قائم ہوا وہ آج بھی تحریک کا باعث ہیں اور رہتی دنیا تک کے لیے امت مسلمہ کے لئےنمونہ اور مثال ہیں۔برادران وطن سے راہ ورسم بڑھانے اور انہیں اسلام سے مانوس کرنے اورہندومسلم خلیج کو پاٹنے کے لئے مسجدیں موثر رول ادا کرسکتی ہیں۔
ملک کے حالات سے ہر حساس دل فکرمند ہے ایسے ماحول میں مسلمانوں کی ذمہ داری دیگر ابنائے وطن کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے دوہری ہو جاتی ہے ہم برادران وطن کو اسلام کی صحیح تعلیمات پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمارا خلوص کا رشتہ استوار نہیں ہوسکا۔صالح معاشرہ کی تشکیل اخلاق و کردار کی بلندی کے لئے کہ سیرت طیبہ کے روشن پہلووں کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسجدنبوی کی طرز پر آج مساجد کو عبادت کے ساتھ ساتھ فلاحی معاشرتی، علمی مرکز بنایا جائے۔ مساجد کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے جس طرح پیارے نبی ﷺ نے اپنے دور میں پیش کیا تھا۔انتظامی کمیٹی برائے مسجدکا کام صرف مساجد کی دیکھ بھال مرمت اور آہک پاشی نہیں ہے۔بلکہ امت مسلمہ کی اصلاح کی بہت بڑی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔مسجدکمیٹی اپنے اپنےمحلے میں فلاحی کام کا منظم طور پر آغاز کرے۔ عبادات کے ساتھ ساتھ مسجدوں کواصلاح معاشرہ و فلاح و بہبود کا مرکزبنائے۔ہر مسجد کمیٹی اپنے نام کے ساتھ ایجوکیشنل اور ویلفیرکا بھی اضافہ کرے مثلا مدینہ مسجد کمیٹی کے بجائے "مدینہ مسجد ایجوکیشنل اور اینڈویلفیر سوسائٹی" اور ہر کمیٹی متعلقہ رجسٹرا ر آف سوسایٹیز سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہو تاکہ حکومت کی فلاحی اسکیمات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔کمیٹی کے پاس محلہ سے جڑے تمام گھروں کی مکمل فہرست ہونی چاہئیے۔جس میں سرپرست کانام/مکان نمبر/افراد خاندان کی تفصیلات و پیشہ/فون نمبر/آدھارکارڈنمبر/ووٹر آئی ڈی کارڈنمبر وغیرہ جیسی تفصیل درج ہو۔ آفات سماوی ہویا کوئی ٹرین یا بس حادثہ ، مسجد کے دروازے ت بلا لحاظ مذہب تمام متاثرین کے لئے کھول دئیے جائیں۔ اہل محلہ ان کے کھانے کا بھی انتظام کرے۔ہر مسجد کے باہر ٹھنڈے پانی کی سبیل ہو۔مسلکی اختلافات کو بالائے طاق کر خدمت خلق کے ذریعہ لوگوں خصوصا غیر مسلموں کے دل جیتے جائیں یہی وقت کا تقاضہ ہے۔یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ مسلکی اختلاف بھلاکر،رشتہ طئےکئے جاسکتے ہیں، دعوتوں وجنازوں میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ لیکن مسجدوں میں ایک ساتھ عبادت نہیں کی جاسکتی ؟
مسجد کی آمدنی کے ذرائع:
نئے مساجد کی تعمیر کے بجائے قدیم مساجد کی آبادکاری کی فکر کی جائے۔مسجد تعمیر کرنے کی واقعی ضرورت ہو تو پچیس لاکھ، تیس لاکھ کی لاگت سے مسجدیں نہ بنائے بلکہ اسی بجٹ کوآدھاکردیں اور باقی رقم
* مسجد کو آباد کرنے
*اہلیان محلہ کو مسجد سے جوڑنے
*بچوں کو نماز کا ہابند بنانے
*مستحق افراد کو قرض دینے
*مستحق نوجوانوں کو فنی تربیت دینے
*انہیں بیرون ملک اور اندرون ملک ملازمت فراہم کرنےیا روزگار سے جوڑنے کے لئے خرچ کی جائے۔
یادرکھیں فکرمعاش نے مسلمانوں کی کمر توڑدی ہے ۔ان کی معاشی پریشانیوں کو دور کریں وہ خود بخود دین سے جڑجائیں گے۔ محلہ کے صاحب ثروت افراد سے ایک سال کے لئے مسجد کمیٹی لون لے۔ دس افراد سے ایک ایک لاکھ لون لیں تو دس لاکھ جمع ہوجائیں گے۔ ایک سال مکمل ہونے کے بعد اس مد میں دیگر احباب کو لون کے لئے تیارکیا جائے۔ اس رقم کو اہلیان محلہ کی معاشی ضرورتوں کومدنظر رکھنتے ہوئے انہیں قرض فراہم کیا جائے اورآسان اقساط پر قرض کی رقم واپس لی جائے۔شرط یہ رکھی جائے کہ ان افراد کو قرض فراہم کیا جائے گا جو پنچ وقتہ نماز کے پابندہونگے اوراپنی اپنی مسجدمیں دین کے بنیادی مسائل سیکھیں گے۔ ۔محلہ کے دو معززین کی ضمانت پر قرض فراہم کیا جائے۔عیدلالضحیٰ کے موقع پر مسجد کے احاطہ میں ہی قربانی کےجانور ذبح کئے جائیں۔چرم فروخت کرکے مسجد کی آمدنی بڑھائ جائے۔صفائی کا خاص خیال رکھا جائے انفرادی طور پر گھروں میں ذبح کو ممنوں قراردیاجائے اور متعلقہ محکموں سے بھی مدد لی جائے،کیونکہ اس سے گندگی اور بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ جس سے سارا علاقہ متاثر ہوتا ہے۔ بدبو اور تغفن کی وجہ سے دیگر اقوم میں ہماری بدنامی ہورہی ہے ۔
فلاحی کاموں کی انجام دہی کے لئے کمیٹی محلہ کے مخیر حضرات سے فردا فردا ملاقات کرے اور اان کی آمدنی کے لحاظ سے ماہانہ چندہ مقرر کرے۔دیگر اہلیان محلہ کو بھی توجہ دلائی جائے کہ انٹرنیٹ، موبائل فون ، ڈش ٹی وی کے لئے ماہانہ اخراجات گھر کے تمام افرادخوش دلی سےادا کرتے ہیں ۔ صرف مسجد کے چندہ کے لئے کیوں بقالت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ؟؟ ان احباب کو احساس دلانے پر معقول آمدنی ہوسکتی ہے۔ محلہ کے وہ افراد جو بیرون ممالک مقیم ہیں ،جب چھٹیوں پر اپنے گھر آتے ہیں تو ان سے ان کی آمدنی کے مطابق پانچ ہزار یا دس ہزار روپے چندہ ضرور موصول کیا جائے۔ہر مسجد میں سعودی عرب کے طرز پر ایک لکڑی یا لوہے کا باکس نصب ہو۔جہاں پراہلیان محلہ مستعمل اشیاء ناکارہ سائیکل کھلونے ،کپڑے، کتابیں وغیرہ جمع کریں ان اشیاء کوضرورت مندوں میں تقسیم کریں یا فروخت کرکے معقول آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔درسی کتابوں کو مستحق طلباء میں مفت تقسیم کیاجائے۔ اور دینی وعلمی کتابوں کے لئے مسجد میں ہی ایک لائبریری قائم کی جائے۔
بزرگوں کی رہنمائی:
ہرمسجد سے متصل موظفین/ بزرگ حضرات کی ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر سماجی اصلاحی ترقیاتی سماجی ،علمی کام لئے جائیں بزرگ قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں ان کے تجربات اور احساسات سے مستفید ہونے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی بھی شدید ضرورت ہے۔مثلا:ٹیچرز/لکچررز محلے کے بچوں کواسی مسجد میں اعزازی طور ٹیوشن دیں جوطالب علم کسی امتحان میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اعلی تعلیم کے لیے رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ محلہ کے ان طلباء کی فہرست بھی مسجد کمیٹی کے پاس ہو جو میٹرک، انٹرمیڈیٹ ڈگری میں ناکام ہوچکے ہیں۔ انہیں مفت ٹیوشن فراہم کیا جائے۔ موظف پولیس ملازمین ، پولیس میں بھرتی کے لئے نوجوانوں کو رہنمائی کریں اور حکومت کے رہنمایانہ خطوط پر انہیں ٹریننگ دیں تاکہ ذیادہ سے زیادہ قوم کے نوجوان ملازمت حاصل کرسکیں۔
اسی طرح جو احباب اپنے اپنے پیشہ/ ملازمت میں ماہر ہیں وہ اپنے اپنے حلقہ کے کم از کم دس نوجوانوں کواپنے سے ذیادہ ماہر بناکرقوم کی غربت دور کرکے دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کریں۔
تعلیم جاری رکھنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصؤل کے لئے بھی مسجد میں ہی کونسلنگ کا نظم کیا جائے۔سرکاری و غیرسرکاری اور بیرون ممالک روزگار حاصل کرنے کے لئے مناسب رہنمائی کی جائے۔مسجد کے بلاک بورڈ پر اسامیوں /جائدادوں کی نوٹس آویزاں کئے جائیں۔حکومت کی فلاحی اسکیمات نیز آدھار کارڈ،راشن کارڈ دیگر شناختی کارڈز کے حصؤل کے لئے کم از کم اتوار کے دن متعلقہ احباب مسجد کے احاطہ میں رہنمائی کریں۔
نوجوانوں کی رہنمائی:
صحت مند نوجوانوں کو خون کے عطیہ کے لئے تیار کیا جائے اور ان کے گروپ اور فون نمبرز علاقہ کے اسپتال اور بلڈ بنکس میں موجود ہوں .بلا لحاظ مذہب مریضوں کو خون فراہم کیا جائے اور اخبارات میں اس کی مناسب تشہر بھی ہو تاکہ دیگر نوجوانوں کو ترغیب ملےاور دیگر ابنائے وطن اسلام کے روشن پہلووں سے آگاہ ہوسکیں۔لائنس کلب اور ہلال احمر کی مددسے فری میڈیکل کیمپ باقائدہ اور تسلسل سے منعقد کئے جائیں۔حکومت کی ہلت اور فلاحی اسکیمات سے مستفید ہونے کے لئے بھی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی اپنی مسجدوں میں اتوار کے دن محلہ کے نوجوان صفائی کااہتمام کریں ۔بیرون ملک ملازمت کے سلسلہ میں مقیم احباب جب چھٹیوں میں گھر آئیں تو اتوار کے دن ان کے تجربات و احساسات نوجوانوں کے سامنے رکھے جائیں کہ کس طرح ملازمت کا حصول ممکن ہے اور کونسی پیشہ وارانہ تعلیم حصؤل ملازمت کے لئے موذوں ہے ؟سٹ ون (حیدرآباد)، کے طرز پر فنی تربیت کے مراکز قائم کئے جائیں۔محلہ کے پیشہ ور نوجواں جیسے ڈرائیور، پلمبر، الیکٹریشن،آٹو ڈرائیور وغیرہ کے لئے کم از کم سال میں ایک مرتبہ اسلامی نہج پر تربیتی پروگرام منعقد کیا جائے اور انہیں احساس دیالاجائے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اخلاق کردار و معاملات کے ذریعہ کس طرح اپنے پیشہ میں ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔
خواتین کی رہنمائی:
خاتون /لڑکی کی تربیت ایک نسل کی تربیت کے برابر ہے۔عورتوں کی اسلامی اقدار پرکردار سازی کی جائے ۔شادی بیاہ کے خرافات عورتوں کی سرپرستی کی وجہ سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہفتہ واری دینیی و تربیتی اجتماع کے ذریعہ ان سماجی برائیوں کو دور کیا جائے۔ سماجی خدمات کے لئے باقاعدہ ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تاکہ نکاح سادگی سے ہو گھر میں منعقد ہونے والی کسی بھی تقریب کے پکوان کے لئےیہ خواتین اپنے ذمہ داری لے۔عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو
*رنگ سازی
*مہندی ڈیزائننگ
*ٹیلیرنگ
*پکوان کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔چھ ماہ کا کورس اسلامی تعلیمات کے ساتھ منسلک کرکے ،کامیاب طلباء کو صاحب استطاعت افراد کی جانب سے سلائی مشین تحفہ میں دی جائے۔ تاکہ خودروزگارکا حصول ممکن ہوسکے۔ پکوان/مہندی/ٹیلیرنگ کی تربیت حاصل کرنے والی مستحق بہنوں/بیواوں کو کسی بھی چھوٹی بڑی تقریب کا آرڈر فراہم کیا جائے۔تاکہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں۔نوجوان لڑکے و لڑکیوں کا مکمل ڈیٹا بھی مسجد کمیٹی کے پاس ہو،ان کے مناسب رشتہ کی فکرکی جائے۔مسجد کے نوٹس بورڈ پر باقاعدہ اعلان کیا جائے۔ سادگی کے ساتھ مسجد میں نکاح کی ترغیب دی جائے۔ جب مسجد کمیٹی اپنی سرپرستی میں یہ کام انجام دے گی تو ازدواجی تعلقات میں توازن برقرار رہے گا۔کیونکہ ذیادہ تر خواتین ساس بہو کے جھگڑے اور معمولی معمولی واقعات پر عدالت اور کچہری کا رخ کررہی ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے سیکڑوں کیس ذیر ایلتوا ہیں۔مسجد کمیٹی اس طرح کے کسی تنازعہ کی مناسب کونسلنگ کرکے امت مسلمہ کے بہت بڑے مسلہ کو حل کرسکتی ہے۔
بچوں کی رہنمائی:
ہم نے بچوں کی رہنمائی و تربیت نہیں کی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ہر مسجد میں صباحی مدرسہ کا نظم ہو جہاں قرآن کے ساتھ ساتھ ،نمازاخلاق و آداب کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔ہر مسجد کمیٹی "نمازکارڈ" کو متعارف کرے۔ بچہ جہاں بھی نماز پڑھے اس مسجد کے امام یا موذن کی نماز کارڈ پر دستخط لے۔ باقاعدہ چالیس دن پنچ وقتہ نماز اداکرنے والے بچے کو جمعہ کے خطبہ کے فوری بعد ترغیبی انعامات دئیے جائیں۔ ۔ہراتوار کوقبل از نماز ظہر بچوں کو نماز ، وضو، غسل اورکھانے ،پینے کی عملی مشق کرائی جائے۔بچےاپنے اپنے گھروں سےٹفن لے آئیں ۔کردار سازی کے لئے مختلف عنوانات پر مذاکرے کروائیں جیسے موبائل فون کے استعمال کے مضمرات۔کتابوں سے محبت کے فائدے۔ ہر مسجد میں بچوں کے دینی و اخلاقی رسائل و جرائد بھی باقاعدگی سے منگوائے جائیں ۔یہ رسالے بچوں کی تربیت کے ضامن ثابت ہوں گے۔
ائما و موذنین کا مقام و مرتبہ:
ائما و موذنین کرام انبیاء کی وراثت کو بڑی خوشنودی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔، بغیر کسی لالچ اورحرص کے یہ اپنی خدمات سال کے بارہ مہینے پیش کرتے ہیں۔ چھٹی کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔ ان کی خدمات کا انہیں معقول معاضہ دیاجائے۔مسجد کی آمدنی بڑھنے پر نئے طہارت خانوں کی تعمیریا مسجد کی تدوین و ترمیم کرنے کے بجائے ۔ان محترمین کی مالی اعانت کی جائے۔ان کے بچوں کی تعلیم کے مکمل اخراجات مسجد کمیٹی ادا کرے۔ انہیں مکمل طبی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ائماء کرام کی تنخواہ کم از کم تیس ہزار روپے ہواور موذنین صاحبان کی یافت پچیس ہزار روپے ماہانہ ہو۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ صاحب ثروت احباب مالی تعاون کریں کہ وہ کوئی مناسب کاروبار کرسکیں ۔ یہ معاشی طور پر بے فکر ہوجائیں گے تو ملت کے رہبرو رہنما ثابت ہوں گے۔
***
(ازقلم: مجید عارف نظام آبادی)
majeedaarif@gmail.com
ماشاءاللہ بہت خوب محترم۔
ReplyDeleteپڑھ کر بہت خوشی ہوئی،
اسی عنوان پر 1993 میں کل ہند تحریری انعامی مقابلے میں مقالہ لکھا تھا،دوم پوزیشن آئی تھی، ایک رسالے میں شائع بھی ہوا تھا۔ بہترین مضمون ہے۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteبہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیرا...محترم!
ReplyDeleteاسلام علیکم
ReplyDeleteمضمون چشم کشا اور لائق تقلید ہے اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے
کیوں کہ اس دور میں کوئی بھی حق بات کہنے کو تےار نہیں ہے
آپ کی حق گوئی اور جذبات کو فروغِ اردو زبان ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفئر ٹرسٹ ہاپوڑ
سلام پیش کرتا ہے
بہت شکریہ محترم!
ReplyDeleteجزاک اللہ خیرا۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ
گزارش ہے کہ اپنی اپنی مساجد میں اس کا م کا آغازکریں۔
انشاء اللہ بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔
طالب دعا
مجید عارف