تمیم نظام آبادی "اتمام " شعری مجموعہ کے آئینے میں
صاحبِ تصنیف کا مختصرتعارف
نام : محمد عبدالقدیر
تخلص: تمیمؔ نظام آبادی
تاریخ پیدائش : 16-10-1971ء
والد کانام : محمد عبدالغنی صاحب مرحوم
تکمیل حفظ : 1983 ءمدرسہ دینیہ عربیہ مدینۃ العلوم ، نظام آباد
تکمیل عالمیت : ء1993 جامعہ اسلامیہ دارالعلوم ، حیدرآباد
بی۔ اے : 2014ءمولاناآزاد نیشنل اُردو یونیور سٹی ، حیدرآباد
ایم ۔اے : مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی ، حیدرآباد
تکمیل ذوق : محمد عبدالغنی صاحب مرحوم
مستقل سکونت : بلال ریزیڈنسی ، مستعید پوری نظام آباد
کتابیں
(1) اتمام (شعری مجموعہ)
(2) مضامین نو(نثری مضامین کا مجموعہ)
(3): مدحِ ممدوح یزداں(نعتیہ مجموعہ شائع شدہ 2016ء
(4) رباعیاتِ تمیم ؔ شائع شدہ 2017ء
زیرِ اشاعت : روشن روشن لفظ سا ل 2020ء
ریاست تلنگانہ میں حیدرآباد کے بعد نظام آبادایک ایسا ادبی مرکز بن چکا ہے ۔ جو اُردو زبان کے نثری اور شعری ادب میں گزشتہ نصف صدی سے مسلسل اضافہ کررہا ہے۔اس شہر میں شاعری کے ذوق کو عام کرنے میں جناب عبدالقدیرمقدر ، عبدالمغنی صاحب، تنویر واحدی اور جمیل نظام آبادی جیسے قادر الکلام شعرا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے بعد جن شعرانے ملک گیر پیمانے پر اپنی شناخت بنائی ان میں ریاض تنہاؔ، اشفاق اصفیؔ، رحیم قمر ؔ، سوزؔنجیب آبادی اور عبدالقدیر مقدرؔ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔اسی طرح بالکل جدید نسل کے شعرامیں نظام آباد کے شریف اطہر ؔاور واحدؔنظام آبادی نے اپنی شاعرانہ حیثیت کو منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اب مولوی حافظ عبدالقدیر حسامی صاحب جن کا قلمی نام تمیم ؔ نظام آبادی ہے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ دنیائے شاعری میں داخل ہورہے ہیں۔ بہت کم عرصہ میں انہوں نے اپنا ایک شعری مجموعہ تربیت دیا ہے جو میری نظر کے سامنے ہیں۔ میں جب تمیم ؔ نظام آبادی سے پہلی بار ملا تھا تو ان کا تخلص سن کر مجھے ظفر اقبال کا ایک شعر یاد آگیاتھا اور اب ان کے شعری مجموعہ کے نام نے اس یاد کو تازہ کردیا ہے ۔
خاتم الشعرا ہمیں مانے نہ مانے وہ ظفر
شاعری کے دین کو ہم نے مکمل کردیا
بات دراصل یہ ہے کہ حافظ عبدالقدیر حسامی صاحب زبردست عالمِ دین ہیں۔ میں نے ان کی پُرمغز اور اثر انگیز تقریریں سنی ہیں وہ موزوں طبع نوجوان ہیں۔لفظ ومعنی پر ان کو قدرت حاصل ہے، جادوبیان مقرر ہیں ،نظام آبادمیں ان کی علمی ودینی تقریریں سننے کے لئے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ ایسے دینی ماحول سے تعلق رکھنے والے جوان نے جب شاعری کی دنیا میں قدرم رکھا تو اپنی تخلیقی صلاحیت کے جوہر دکھائے۔ ان کے یہ چند اشعار دیکھیں جو ان کو غیر معمولی شاعرانہ صالاحیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں
ہماری عمر ہی طوفانی لہروں کی ہے پروردہ
کبھی سیلاب آجائے تو ہم کو لطف آتا ہے
آہ نکلے گی تو رکھ دے گی جلا کر سب کو
کبھی مخلوق کو ہرگز نہ ستایا جائے
تمیمؔ نظام آبادی کی نظامت میں میں نے دو مشاعرے پڑھے۔ بڑی خوبصورت نظامت کرتے ہیں۔ لفظ ومعانی سے فائدہ اٹھانے کے فن سے اچھی طرح واقف ہیں اور بڑے سلیقے سے اپنے مافی الضمیر کو لفظوں میں ڈھالتے ہیں، ان کی چند غزلوں میں روحِ عصربھی جلوہ گر ہے ۔ ملاخطہ ہو؎
اس چمن کا یہ حال راز ہے کیوں
اس سے روٹھی ہوئی بہار ہے کیوں
رہبران وطن کو ہے معلوم
ملک میں اتنا انتشار ہے کیوں
تمیم ؔنظام آبادی بنیادی طور پر ایک عالمِ دین ہیں۔ اصلاح معاشر ہ ان کی زندگی کا نصب العین ہے۔ اس لئے ان کی شاعری میں اصلاحی پہلو بھی ہے ۔ لیکن ان کے اصلاحی اشعار سپاٹ نہیں ہیں ۔ان میں رنگ ِ تغزل ہے اورتمام فنی خوبیاں ہیں جو دلوں کو چھولیتی ہیں چند اشعار دیکھئے
شاید اس کا ضمیر ہے زندہ
ورنہ وہ اِتنا شرمسار ہے کیوں
ٹوٹ کر ہم گلے تو ملتے ہیں
دل میں ہر ایک کے غبار ہے کیوں
اشکِ توبہ ہی کا دریا ہے فقط دنیا میں
داغؔ دھبے جوگناہوں کے ہیں دھوجاتا ہے
میں نے مولوی حافظ عبدالقدیر حسامیؔ ( تمیم ؔ نظام آبادی )کے مجموعہ کلام پر سرسری نظر ڈالی ہے۔ اسے تفصیل سے پڑھنے کی سعاد ت حاصل نہیں ہوئی لیکن جو غزلیں میری نظروں سے گزریں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرت دنیائے شاعری میں اپنا ایک مخصوص مقام بنانے میں کامیابی حاصل کریں گے ۔ آخری میں بس یہی کہوں گا؎
ہر لخطہ نیا طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلئہ شوق نہ ہو طئے
***
مضمون نگار: ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی ؔ(ناندیڑمہاراشٹرا)
No comments:
Post a Comment