رضی الدین اسلم: ایک مثالی استاد اور محب اردو - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

5.5.20

رضی الدین اسلم: ایک مثالی استاد اور محب اردو


رضی الدین اسلم ۔ ایک مثالی استاد اور محب اردو

 نظام آباد شمالی تلنگانہ کا ایک اہم ضلع ہے۔ نظام دور حکومت میں یہ ضلع شکر سازی کی صنعت کے لیے مشہور تھا کیوں کہ یہاں شکر نگر کے مقام پر ایشیاءکی مشہور نظام شوگر فیکٹری قائم تھی۔ آزادی کے بعد اس شہر کو تجارت کے علاوہ اردو زبان کے فروغ اور تعلیم و تدریس کے میدان میں نمایاں خدمات کے طور پر بھی شہرت ملی۔ حیدرآباد کے بعد اگر تلنگانہ کے کسی شہر میں معیاری تعلیمی ادارے ہیں اور جہاں کے طلباءاور اساتذہ نے عالمی سطح پر اپنی تعلیمی قابلیت کا لوہا منوایا ہے تو وہ شہر نظام آباد ہے۔ نظام آباد میں کاکتیہ‘گوتمی‘ تعلیمی اداروں کے علاوہ گولڈن جوبلی‘کریسنٹ اور نالج پارک کے نام سے تعلیمی ادارے تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ نظام آباد کے نامور اساتذہ جنہوں نے اردو میڈیم شعبہ تدریس میں اپنی یادیں چھوڑی ہیں ان میں فزیکل ڈائرکٹر قادر صاحب جو ریاضی پڑھانے کے لیے بھی مشہور تھے۔ نجم الدین صاحب۔سرور علی۔ بیگ صاحب۔ غفار صاحب۔ عبدالصمد صاحب۔ افتحار صاحب۔معز صاحب۔ رشید صاحب وغیرہ ہیں۔ان کے علاوہ بھی بے شمار اساتذہ ہیں جنہوں نے اسکول اور کالج کی سطح پر نمایاں خدمات انجام دی ہیں گزشتہ 20سال سے نظام آباد میں اردو میڈیم کالج کی سطح پر فزکس(طبعیات) مضمون کے ماہر استاد کے طور پر جس شخصیت کا نام ہر طالب علم ‘استاد اور ماہرین تعلیم کے درمیان مشہور ہے وہ رضی الدین اسلم ہیں۔ یہ نظام آباد کے نامور سپوت ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے مضمون فزکس میں تدریس کے ذریعے کئی نسلوں کی آبیاری کی ہے بلکہ اپنے مضمون کی تدریسی کتابوں کی تیاری اور دیگر انتظامی امور‘ادبی و سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے ہوئے اہل نظام آباد کے باعث فخر ہیں۔ رضی الدین اسلم ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ان کے والد جناب محمد فیاض الدین صاحب وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد سینیر سٹیزن ویلفئرسوسائٹی سے وابستہ ہیں اور نظام آباد میں سماجی خدمات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ اقبال بیگم آغا خان اردو میڈیم اسکول میں مدرس تھیں اور ہر خاص و عام میں اقبال ٹیچر کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ رضی الدین اسلم کی ابتدائی تعلیم اردو میڈیم آغا خان اسکول برکت پورہ نظام آباد میں ہوئی۔ چونکہ میری تعلیم بھی اسی مدرسہ سے ہوئی اس لیے بچپن سے ان کی میری شناسائی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ رضی الدین اسلم مجھ سے ایک سال سینیر ہیں اور اسکول کے زمانے میں بھی وہ کافی ذہین طالب علم تھے۔ اقبال ٹیچر کے بیٹے کے نام سے مشہور تھے اور تعلیمی و دیگر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ اسکول میں جناب جبار صاحب۔ ماجد صاحب ۔یعقوب صاحب۔عزیز صاحب۔عسکری صاحب۔ میمونہ ٹیچر۔ نکہت ٹیچر ۔حبیبہ ٹیچر کے زیر سرپرستی انہوں نے پرائمری تعلیم مکمل کی ۔پرائمری تعلیم کے بعد نظام آباد اردو میڈیم کے طلباءاکثر قلعہ ہائی اسکول یا دھارو گلی ہائی اسکول میں داخلہ لیا کرتے تھے۔ رضی الدین اسلم اور بعد میں میں نے بھی قلعہ ہائی اسکول اردو میڈیم سے ہی تعلیم حاصل کی۔ہمارے اساتذہ میں جناب قادر صاحب۔ غفار صاحب۔افتخار صاحب معز صاحب۔ شمیم میڈیم اور دیگر لوگ تھے۔ شائد1984 کی بات ہے رضی اسلم نے نمایاں نشانات سے ایس ایس سی امتحان کامیاب کیا۔اس زمانے میں ہر سال نصاب تبدیل ہورہا تھا۔ رضی نے قدیم نصاب کے ساتھ ایس ایس سی کامیاب کیا جب کہ میں جس بیچ میں تھا ہر سال نصاب تبدیل ہورہا تھا اور اساتذہ ہمیں مضامین کو محنت سے پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ رضی نے ایس ایس سی کے بعد قلعہ جونیر کالج سے ایم پی سی انٹرمیڈیٹ کامیاب کیا اور پھر نظام آباد کے واحد سرکاری ڈگری کالج گری راج گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی کیا۔ انہوں نے فزکس سے ایم ایس سی کیا۔ چونکہ میں اپنے افراد خاندان کے ساتھ1985ءمیں مزید تعلیم کے لیے نظام آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگیا تھا۔ درمیان میں رضی سے رابطہ کم رہا۔ لیکن جب رضی عثمانیہ یونیورسٹی میں ایم اے اردو کی غرض سے حیدرآباد منتقل ہوئے تو میری ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم اردو میں داخلہ لیا تھا جب کہ رضی نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا تھا۔ میرے ہم جماعت اسلم لوہیا بھی لکڑی کا پل کے مکرم جاہ ہاسٹل میں مقیم تھے۔ جامعہ عثمانیہ کے اردو فیسٹیول میں ہم لوگ زور و شور سے حصہ لیتے تھے۔ صرف ایک منٹ۔ بیت بازی۔تحریر۔تقریر۔ادبی و جنرل کوئز اور دیگر مقابلوں میں رضی میں اور اسلم لوہیا نے نظام آباد کی خوب نمائیندگی کی اور انعامات جیتے۔ ہمارے ایک دوست اعظم ریاضی کے ماہر تھے وہ ایم سی اے میں ریاستی سطح کا پہلا رینک لاچکے تھے بی ایڈ میں ان کا رینک ابتدائی دس میں تھا۔ ان کی ملازمت اچھی کمپنی میں ہوئی تھی وہ اور رضی کچھ دنوں کے لیے معراج کالونی اور عزیزیہ مسجد مہدی پٹنم کی گلی میں کمرہ لے کر مقیم تھے۔ یہ شائد1997ءکی بات تھی جب میں عارضی ملازمت کے سلسلے میں ہمارا عوام میں سب ایڈیٹر کے طور پر کارگزار تھا ایک دن اخبار میں کالج سرویس کمیشن کی جانب سے جونیر لیکچررز کی جائیدادوں کا اشتہار آیا۔ اردو میں چھ جائیدادیں تھیں اورفزکس میں ایک یا دو جائیدادیں تھیں۔ جب مہدی پٹنم کے کمرے میں بیٹھ کر میں اور رضی اس اشتہار کا مطالعہ کر رہے تھے تو رضی نے اس اشہتار پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ فزکس کی ایک جائیداد ان کی ہے۔ اس سے ان کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ بہر حال ہم لوگوں نے کالج سروس کمیشن کے امتحان کی تیاری شروع کردی۔ امتحان ہوا اور کورٹ کاروائیوں کے سبب ایک سال تک نتائج رکے رہے۔ جب میں سیاست میں سب ایڈیٹر تھا تب ایک دن شام میں ڈیسک پر کام کے دوران معراج مرزا انچارج ایڈیٹر نے اعلان کیا کہ کالج سرویس کمیشن کے جونیر لیکچررز کے نتائج کا اعلان ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ صاحب میں بھی اس امتحان میں امیدوار تھا تب انہوں نے مجھ سے رول نمبر پوچھا اور مضمون اردو میں دیکھ کر مبارکبادی کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ مبارک تمہارا نمبر ہے۔ اردو مضمون میں 6جائیدادوں کےلئے ایک ہزار امیدواروں نے امتحان لکھا۔ اور میں ریزرو امیدوار کے بعد ریاستی سطح پر دوسرے نمبر پر تھا۔ ادھر نظام آباد فون کیا تو پتہ چلا کہ رضی بھی فزکس مضمون میں منتخب ہوگئے ہیں یہ ہم لوگوں کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں سماج کی جانب سے یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ اردو میڈیم سے پڑھ کر کیا ہوگا یہ بات ہم لوگوں کے لیے چیلنج تھی اور رضی میں نے اور اعظم نے یہ ثابت کیا کہ اردو والے کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ رضی کی پوسٹنگ گورنمنٹ جونیر کالج بودھن پر ہوئی۔ میری پوسٹنگ گورنمنٹ جونیر کالج ناگر کرنول پر ہوئی۔ میرے ساتھ رضی کی مامی اور جوبلی ہوٹل کے عابد کی بہن اور غزالہ کی پوسٹنگ معاشیات مضمون میں ناگر کرنول پر ہوئی اس بیچ میں قلعہ جونیر کالج کے موجودہ پرنسپل یقین الدین معاشیات اور گڑھی جونیر کالج کی موجودہ پرنسپل اور جناب ہاشم صاحب کی دختر نصرت بھی نظام آباد سے جونیر لیکچرر کے لیے منتخب ہونے والوں میں شامل تھے۔ 
 رضی نے فزکس اور اردو میں پی جی کرنے کے علاوہ سائنس مضمون سے بی ایڈ بھی کیا تھا۔ ادھر میں نے اردو پنڈٹ کورس کیا تھا۔ 1997ءمیں اردو میڈیم کے لیے اسپیشل ڈی ایس سی منعقد ہوا تھا۔ اس ڈی ایس میں رضی نے ضلعی سطح پر پہلا رینک حاصل کیا تھا اور ان کی پوسٹنگ پولس لائن ہائی اسکول میں ہوئی تھی۔ اس طرح رضی کی پہلی سرکاری ملازمت بہ حیثیت اسکول ٹیچر1997ءمیں پولس لائین اسکول میں ہوئی اسی دوران ہم لوگوں نے جونیرلیکچرر کا امتحان اور انٹرویو دے رکھا تھا۔ جونیر لیکچرر کی پوسٹنگ اگسٹ1998ءمیں دی گئی۔ اور رضی نے بہ حیثیت جونیر لیکچرر 8سال تک جونیر کالج بودھن میں اپنی خدمات انجام دیں۔ اس وقت سبھی اساتذہ اور لیکچررز بے چینی سے تبادلوں کے منتظر تھے تقریباً آٹھ سال کے انتظار کے بعد تبادلے ہوئے اور رضی کا تبادلہ قلعہ جونیر کالج نظام آباد پر ہوا۔ ان کا مکان قلعہ روڈ پر ہی گولڈن جوبلی اردو میڈیم اسکول کے بازو ہے۔ اپنے گھر سے قریب ملازمت ہونے کے سبب رضی کو فرصت بھی ملی اور انہوں نے وقت کا درست استعمال کرتے ہوئے اپنی تدریسی خدمات کو وسعت دی اور اعزازی طور پر گولڈن جوبلی جونیر کالج میں بھی طلباءکو فزکس پڑھایا۔ رضی الدین اسلم کی یہ خاص بات رہی کہ انہوں نے جس کالج میں انٹرمیڈیٹ کیا اسی کالج میں انہیں بہ حیثیت جونیر لیکچرر اور بعد میں ایف اے سی پرنسپل کچھ عرصہ کام کرنے کا موقع ملا۔بہ حیثیت پرنسپل انہوں نے اردو مضمون کے لیے کئی مقامی امیدواروں کی میرٹ کی بنیاد پر حوصلہ افزائی کی کیوں کہ کالج میں اردو مضمون کے لیے کوئی بھی ریگولر لیکچرر نہیں تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے بہ حیثیت پرنسپل اپنی صلاحیتوں سے سب کا دل جیت لیا۔ نظام آباد میں قیام کے دوران انہوں نے نصابی سرگرمیوں کے تحت انٹر کی فزکس کی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا جس سے ریاستی سطح پر اردو میڈیم سائنس پڑھنے والے طلباءکو مدد ملی۔ انہوں نےCEDMمرکز برائے تعلیم اقلیتی بہبود کے تحت 15سال تک طلباءکو مسابقتی امتحانات کے لیے مضمون فزکس کی کوچنگ دی۔ ان کی کوچنگ سے کئی طلباءنے ایمسیٹ اور ڈی ایس سی و دیگر امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔ رضی کے کئی شاگرد اب مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ گورنمنٹ جونیر کالج میں ملازمت کے دوران رضی الدین اسلم جونیر لیکچر اسوسی ایشن کے کئی عہدوں پر فائز رہے یہی وجہہ ہے کہ13سال تک وہ اسی کالج سے وابستہ رہے اور ان کا تبادلہ نہیں ہوا۔ لیکن جب انہیں 2017ءپرنسپل کے عہدے پر ترقی ملی تو ان کا تبادلہ گورنمنٹ جونیر کالج درپلی ہوا۔ ایک بڑے کالج سے ایک چھوٹے کالج جانے کے باوجود ان کے کام کرنے کے انداز میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور وہ اس کالج کو ترقی دینے کے لیے کوشاں ہیں۔اب وہ کارنشین بھی ہیں اور ذریعے کار درپلی جانا آنا لگا ہوا ہے۔ہرسال انٹرمیڈیٹ پرچوں کی جانچ کے کام میں وہ اہم ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔ امتحانات کے کامیاب انصرام کے لیے وہ دیگر کالجوں کو پریکٹیل امتحانات کے ممتحن کے طور پر جاتے رہے۔ اس کے بعد چیف سپرنٹنڈنٹ کے طور کالج میں بڑی تعداد میں کامیابی کے ساتھ امتحانات کا انصرام کیا۔کالج میں منعقد ہونے والے دیگر سرکاری امتحانوں میں بھی وہ مبصر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ الیکشن کی ڈیوٹیوں میں بھی اہم فرائض انجام دئے۔ گزیٹیڈ عہدے پر فائز ہونے کے سبب نظام آباد میں اکثر طلباءان سے گزیٹیڈ عہدے دار کی دستخط کے لیے رجوع ہوتے ہیں اور رضی اپنا ملی فریضہ سمجھ کر سب کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اسی طرح شادی مبارک اور دیگر ضروری کاموں کے لیے بھی بلا لحاظ مذہب و ملت سب کی مدد کرتے ہیں ان کا حلقہ احباب کافی وسیع ہے اور تدریسی شعبے میں اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک ریاستی سطح پر سب ان سے واقف ہیں اور ان کی شخصیت سے متاثر ہیں۔
 رضی الدین اسلم کو شروع سے ہی اردو ادب سے دلچسپی رہی۔ سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود اپنے ذوق کی تکمیل کے لیے انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ پروفیسر بیگ احساس،ڈاکٹر عقیل ہاشمی، ڈاکٹر اشرف رفیع وغیرہ سے ادب پڑھا اور ادبی مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اردو ادب سے وابستگی کے طور پر انہوں نے صدائے اردو سوسائٹی قائم کی اور اس کے صدر ہیں انہوں نے گولڈن جوبلی ہائی اسکول اور دیگر مقامات پر کئی چھوٹے بڑے مشاعرے کرائے۔ ان کے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کی۔نظام آباد میں کوئی بھی مشاعرہ ہو وہ اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔ کبھی صدر کے طور پر کبھی مہمان خصوصی کے طور پر یا کبھی سامع کے طور پر اور اچھے اشعار پر ضرور داد دیا کرتے ہیں ۔گری راج کالج، نظام آباد میں ملازمت کے دوران میں نے رضی کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کی خاص طور سے ادارہ ادب اسلامی کے مشاعروں میں اور ادارہ گونج کے اداروں میں ۔ رضی شطاری۔ اشفاق اصفی ان کے قریبی رفیق ہیں اور اکثر نجی محفلوں کے مشاعروںمیں مجھے بھی مدعو کیا کرتے تھے۔نظام آباد میں ایک نامور محقق جناب وسیم صاحب ہارٹیکلچرسٹ ہیں انہیں اردو شعر و ادب کا اچھا ذوق ہے اور اردو ادب کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے کافی عرصے سے اپنے کمپیوٹر میں اردو شاعری کے کلاسیک ویڈیوز جمع کئے ہیں اور اکثر بڑے اسکرین پر کسی عنوان سے ویڈیوز دکھاتے ہیں انہوں نے فیض غالب اور اقبال پر کامیاب پروگرام کئے ۔ رضی الدین اسلم کی خواہش پر گولڈن جوبلی اسکول کے احاطے میں ایک کامیاب پروگرام ہوا جس میں کئی باذوق ناظرین نے شرکت کی تھی۔ نظام آباد میں گری راج کالج کے تحت ایک قومی اردو سمینار 2013ءمیں منعقد کیا گیا تھا دور وزہ سمینار کے پہلے دن رات میں گولڈن گیسٹ ہاﺅز بودھن روڈ پر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر مجید بیدار اور ڈاکٹر محسن جلگانوی نے شرکت کی تھی رضی الدین اسلم نے اس مشاعرے میں شرکت کی اور حیدرآباد سے آنے والے شرکا اور ادیبوں کا خیر مقدم کیا۔ڈاکٹر عزیز سہیل۔ ڈاکٹر ناظم علی۔ محمد عبدالبصیر اور دیگر کی کاوشوں سے ہم لوگوں نے نظام آباد میں ریسرچ اسکالرز کی رہبری کے لیے اردو اسکالرس اسوسی ایشن نظام آباد قائم کی تھی۔ اس کے پہلے اجلاس میں پروفیسر اکبر علی خان وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نے شرکت کی اور کتب خانے کے لیے دس ہزار روپیوں کا عطیہ دیا تھا۔ اس اسو سی ایشن کے اجلاس اردو اکیڈیمی لائبریری احمدی بازار میں جناب جمیل نظام آبادی اور دیگر کی سرپرستی میں ہوا کرتے تھے۔رضی الدین اسلم ان اجلاسوں میں پابندی سے شرکت کرتے اور اپنے مفید مشورے دیتے۔ رضی الدین اسلم نظام آباد میں نوجوانون کی تنظیم ایم ایس او کی سرپرستی بھی کرتے ہیں اس تنظیم کے تحت نوجوان صالح اسلامی و ادبی قدروں کو عام کرنے کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اس تنظیم کے طلباءکو مشورے دینا اور طلباءکو زندگی کے ہرشعبے میں آگے بڑھانے میں رضی الدین اسلم کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ رضی الدین اسلم نے اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کے تحت بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے لیے اپلائی نہیں کیا۔ ان کی ہمیشہ یہی شکایت رہی کہ اکیڈیمی خود قابل انسانوںکا انتخاب کرے۔ لوگ ایوارڈ کے لیے درخواست کیوں دیں۔ اس سے ان کی خود داری کا اندازہ ہوتا ہے۔ریاستی حکومت کی جانب سے2015ءمیں اسٹیٹ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے لیے از خود ان کا انتخاب عمل میں آیا اور یوم اساتذہ کے موقع پر حیدرآباد میں انہون نے ریاستی وزیر تعلیم کے ہاتھوں بیسٹ ٹیچر ایوارڈ اور توصیف نامہ حاصل کیا اس موقع پر مختلف تنظیموں نے ان کی گلپوشی اور شال پوشی کی۔
 قلعہ جونیر کالج میں جب وہ پرنسپل تھے پروفیسر مظفر شہ میری صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد موجودی وی سی عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول نے نظام آباد کا دورہ کیا تھا رضی الدین اسلم نے فون کرکے مجھے اور دیگر ماہرین تعلیم کو قلعہ جونیر کالج مدعو کیا اور یونیورسٹی کے انٹگریٹیڈ اردو کورس کے لیے طلباءکے داخلوں کو یقینی بنانے تجاویز طلب کیں ۔رضی الدین اسلم کا کہنا تھا کہ اردو میڈیم طلباءکو جب تک روزگار سے مبنی کورسز سے نہیں جوڑا جائے گا یہ طلباءاردو مضمون میں اعلیٰ تعلیم کے لیے راغب نہیں ہوں گے۔بعد میں ان کی کار میں بیٹھ کر ہم لوگوں نے مقامی ہوٹل میں پروفیسر مظفر شہ میری کے ساتھ لنچ کیا۔ رضی الدین اسلم کے خاص دوست مسعود اعجاز ہیں جو کارپوریٹر عہدے کے لیے اکثر احمد پورہ کالونی سے امیدوار ہوتے ہیں اور جن کی دودھ کی دکان چھوٹی نہر کے روبرو ایک مینار مسجد کے اتار پر ہے۔ اکثر رضی رات کے اوقات وہاں اپنے دوست احباب سے ملاقات کے لیے دستیاب رہتے ہیں۔ فون سے وہ اکثر مختلف مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔
 ان کی ایک بیٹی گری راج کالج سے بی ایس سی کر رہی ہیں۔انسان زندگی کے ہر لمحے طالب علم رہتا ہے۔میری خواہش ہے کہ رضی اپنی مصروفیات میں کچھ وقت نکال کر فزکس میں پی ایچ ڈی بھی کر لیں کیوں کہ تعلیم کی کوئی حد نہیں۔ ڈگری کی سطح پر سائنس کی کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ اردو اکیڈیمی کے تحت ان دنوں اردو میڈیم آرٹس کی کتابوں کی تیاری کا کام چل رہا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ نظام آباد میں موجود سائنس کی قابل شخصیات رضی الدین اسلم فزکس‘ ڈاکٹر محمد عبدالرفیق گری راج کالج کیمسٹری‘ڈاکٹر حلیم خان تلنگانہ یونیورسٹی بیالوجی ،ڈاکٹر زینب ، بیالوجی وغیرہ اردو میں ڈگری کی سطح کا نصاب اردو میں ترتیب دیں تو اردو میڈیم سے بی ایس سی پڑھنے والے طلباءکو بہت مدد ملے گی۔ رضی الدین اسلم فیس بک اور واٹس اپ سے وابستہ ہیں اور فرصت کے اوقات اپنے تبصرے پیش کرتے رہتے ہیں۔ پرنسپل بننے کے بعد ان کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں اس لیے وہ سوشل میڈیا پر بہت کم رہتے ہیں لیکن حالات سے باخبر رہتے ہیں۔رضی الدین اسلم اردو میڈیم سے پڑھ کر اعلیٰ عہدے تک پہونچے وہ ان تمام طلباءکے لیے مثال ہیں جو کم وسائل کے باوجود یقین محکم ‘عمل پیہم کے ساتھ جہد مسلسل کے ساتھ اپنی منزل پاتے ہیں اور ملک و قوم کا نام روشن کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو رضی الدین اسلم اپنی ذات میں ایک انجمن سائنس اور خاص طور سے فزکس مضمون کی چلتی پھرتی دانش گاہ ہے۔امید کی جاتی ہے کہ ان کے فیض علمی کا دریا بہتے رہے اور ریاستی و قومی سطح پر طلباءان سے مستفید ہوتے رہیں۔ 
 ترقیوں کی دوڑ میں زور اسی کا چل گیا
 بنا کے اپنا راستہ جو بھیڑ سے نکل گیا

 *******
 از: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی، صدر شعبہ اردو، این ٹی آر ڈگری کالج،محبو ب نگر 


تصویرنمبر1: جناب رضی الدین اسلم،سال 2007 ء میں بسٹ ٹیچر ایورڈ جناب محمود علی، ڈپٹی چیف منسٹرتلنگانہ سے حاصل کرتے ہوئے ۔تصویر میں جناب کڈم سری ہری، ڈپٹی چیف منسٹراور جناب نرسمہا ریڈی،وزیرداخلہ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 
 تصویر2:ڈاکٹر اسلم فاروقی ، جناب رضی الدین اسلم سے گونج ایورڈ حاصل کرتے ہوئے،تصویر میں جناب ایس اے شکور، سابقہ ڈائرکٹر اردواکیڈمی، جناب جمیل نظام آبادی،جناب ماجدخان،قائدکانگریس دیکھے جاسکتے ہیں

3 comments:

  1. جزاک اللہ ۔۔۔۔آغا خان اسکول اور ہمارے استادوں کے نام سن کر دلی مسرت ہوئی ہے ۔

    ReplyDelete
  2. بڑی نوازش!!!
    حوصلہ افزائی کے لئے مشکور ہوں۔
    (مجیدعارف)

    ReplyDelete
  3. Dear Dr. Aslam Farooqi how nice you wrote, I really congratulate you on this effort. My Dear Razi Sir, You are one of the Jewel of Nizamabad, Proud to be your friend.

    Thank you very much to take me in past.
    Shakeel Ahmed
    Friend of Razi uddin Aslam

    ReplyDelete