خالدحسین قیصری: یہ غازی یہ تیرے پرُاسرار بندے - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

7.5.21

خالدحسین قیصری: یہ غازی یہ تیرے پرُاسرار بندے

یہ غازی یہ تیرے پرُاسرار بندے علامہ اقبال کی یہ نظم خالد قیصری سر استاد محترم جب پڑھتے تھے تو لگتا تھا کہ ایسے ہی اسکی روح میں اُتر کر پڑھنے اور سمجھنے والوں کے لئے علامہ اقبال نے لکھا تھا۔
 16رمضان یوم بدر یوم جمعہ وقت سحر جب یہ اطلاع پڑھی تو لگا کہ وہ واقعی غازی ہوگئے ۔ اللہ رب العزت نے انھیں اس مقدس ومحترم دن اپنے پاس بلاکر انھیں غازی بنادیا ۔
 استادِ محترم خالد حسین قیصری جب پڑھاتے تو لگتا تھا کہ وقت ختم نہ ہو اور وہ اسی طرح دماغوں اور ذہنوں کو متاثر کرتے رہیں ۔ سبق کا آغاز کرنے کا ان کا اپنا انداز تھا۔ ساے ٹریننگ لینے والے طلباان کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے اور اپنی طرف توجہ مبذول رکھوانے کا یہ فن وہ اپنے کلاس کے اختتام تک برقرار رکھتے تھے۔ اسکول کی تعلیم وتربیت کے دوران بہت سارے اساتذہ نے مقصد زندگی سے روشناس کرایا تھا۔ اللہ تعالی ان سارے اساتذہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین
 لیکن تعلیم کا صحیح شعور محترم خالد نے دیا۔ اور زندگی کے صحیح شعور اور تربیت کے اُصولوں سے روشناس کرواکر اُسے منتقل کرنے کی جو روایات انہیں نے اپنے طلبا(زیر تربیت) کو دی مجھے یقین ہے کہ ان سے جن جن طلباء نے یہ شعور حاصل کیا وہ اپنی جگہ خود ایک خالد قصیری بن کر ابھریں گے۔ پڑھاتے توقت ان کے جذبے اور بیقراری کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ سب زیر تربیت اساتذہ میں اپنی بے چین روح کو داخل کردینا چاہ رہے ہیں۔ او ر ان کی یہ تڑپ رہتی تھی کہ سارے زیر تربیت اساتذہ ان کی تڑپ اور لگن کو اپنے اندر بھی سمولیں۔
 طلبا کے مستقبل کی انھیں جو فکر تھی وہ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتی تھی۔ اورتعلیم کے پیشہ کا تقدس انھوں نے سیکھایا تھا ان کا یہ ماننا تھا کہ اس سے مقد س پیشہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اور ایسے اساتذہ ان کی معنیٰ خیر ہنسی کانشانہ بنتے تھے۔ جو صرف مہینہ کے ختم کا انتظار کرتے تھے۔ آپ اگرایک استاد بنناچاہ رہے ہیں تو یا تو آپ سینکڑوں طلباکو برباد کررہے ہیں۔ یا آپ انہیں تعمیر کررہے ہیں یہ آپ کے اپنے پیشے سے انصاف بتائے گا جو آپ کریں گے۔ یا آپ مسلسل سیکھ کر اپنے طلبا کے اندر وہ ساری صلاحیتیں پیدا کریں گے جس سے وہ کل آپ کی قوم اورآپ کے ملک کے لئے روشنی کا باعث ہوں گے۔ یہ آپ کے اُوپر منحصر ہے ۔ مندرجہ بالا الفاظ وہ اکثر اپنی کلاس میں کیا کرتے تھے۔ نظموں اور اقبال کے کلام کو سناتے وقت ان کے چہرے کے تاثرات سے گویا وہ سارا پیغام اشاروں کی زبان میں سمجھانا چاہتے تھے۔ 
 " چندا ماما کہتے کہتے تھک گئے مرے ہونٹ 
" ننھے ملاحوں کی دنیا وہ بہت خوبصورت انداز میں پڑھتے تھے۔ 
اقبال کی نظموں کا صحیح خط خالد سر سے سنتے آیا تھا۔ " یہ غازی تیرے پُر اسرار بندے ہیں " " شراب کہیں پھر پلایا ساقی " یہ وہ نظمیں ہیں جنھیں خالد سر ڈوب کر پڑھتے تھے ۔ اور پوری کلاس پر سناٹا چھایا رہتا تھا۔ اپنے دبلے پتلے وجود کے ساتھ وہ اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے۔ "
" لہو کو اک گرم رکھنے کا ایک بہانہ " 
جناب خالد حسین قصیری ان اساتذہ میں سے تھے جن کی تربیت نے کئی " خالد " کو تعمیر کیا ہوگا۔ استاد محترم کے ساتھ استاد محترم رفیق صاحب اور استاد محترم نصیر الدین صاحب ان اساتذہ میں شامل ہے ، جنھوں نے اپنے خون جگر کو اپنے طلبا کے لئے جلانا پسند کیا ۔ 
ان کے آنکھوں کے اشارے ، معنی خیز ہنسی اور چہرے کے تاثرات گویا سارا نفسِ مضمون بیان کردیتے تھے لیسن پلان کو خالد سرے کے پاس لیے جانا طلبا کے لئے گویا پل صراط پر چلنا تھا۔ ایک وہ استاد تھے جو اپنے سخت لہجے سے آپ کو شرمندہ کردیتے تھے مگر اس کا اثر (کرکشن ) ہونے تک ہی رہتا تھا۔ مگر خالد سر کا نرم لہجہ ، میٹھا انداز ، مگر چہرے کے تاثرات اورمعنی خیز ہنسی شاید ہم لوگ اپنی زندگی کے اختتام تک نہ بھول سکیں گے۔ 
جو جو ہمارے غلطیوں کے وقت دیکھاتے تھے۔ ان کا مخصوص جملہ تھا،۔ " یہ جو 'سروں' میں آپ تعلیم وتربیت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ، یہ صرف آپ اساتذہ کے سامنے بیٹھے ہوئے مادی وجود نہیں بلکہ یہی " سر" اور انھیں دی گئی آپ کی تعلیم کل آپ کی کامیابی اور ناکامی کو طے کرے گی۔ آپ جو پڑھارہے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ سب سے پہلے ہر زاویہ سے اس پر عبور حاصل کریں پھر تب اسے دوسروں میں منتقل کریں ورنہ یہ لنگڑی ،لولی تعلیم آپ کے لنگڑےلوے مستقبل کو تیار کرے گی۔ جس کے ذمہ دار آپ اساتذہ ہوں گے۔ "موسیقی منع ہے مگر یہ آپ کی توجہ بڑی بے ساختہ طور پر اپنی طرف کھینچ لیتی ہے " نظم پڑھائیں تو اس طرح کہ طلباآپ کو پڑھاتے دیکھ کر سن کر ان کی روح تک پہونچ جائیں۔ یہ مرحوم استاد خالد حسین قیصری کے وہ الفاظ ہیں جو ہمیشہ ذہن کے گوشے میں چھپے رہتے ہیں۔ ملک ملت ، طلبا، اساتذہ کو لیکر وہ اک سیماب طبعیت رکھتے تھے۔ اورا س کا اظہا ر ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا رہتا تھا۔ بہت گہرا تاثیر اور اثر پذیری ان کے طلبا نے ان سے سیکھی تھی۔ ان کے ناقدانہ انداز سے ہم ڈرتے بھی تھے۔ مگر یہ احساس بھی طلبا کو رہتا تھا کہ اگر گوہر آبدار تعلیم کے ملیں گے تو خالد سر ہی ملیں گے۔ دورِ تعلیم (ڈائٹ تعلیم ) کے خاتمہ کے بعد بھی کئی ایک پروگرامس میں خالد سر کو سننے کا موقع ملا ۔ وہی انداز ، وہی تڑپ، وہی فلسفیانہ سوچ، سر کا مستقل حصہ بن گئی تھی۔ ان سطور میں استاد محترم خالد حسین قیصری کو خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بادیدہ نم حق تعالیٰ کے حضور میں دُعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اور اپنے اس مخلص بندے کو غازی کی حیثیت سے قبول فرمائے کل روز حشر غازی کی حیثیت سے اٹھائے۔ وہ اس شعر کی تفسیر تھے۔
 دو عالم سے گرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی

 ***** مضمون نگار: ام خولہ، آرمور

2 comments: