فضل اللہ قریشی: "گلاب ہیں ہم لوگ" - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

4.8.20

فضل اللہ قریشی: "گلاب ہیں ہم لوگ"


فضل اللہ قریشی: "گلاب ہیں ہم لوگ" 

 ہندوستان کے نقشہ میں آرمور ضلع نظام آباد کو ایک نقطہ کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے، لیکن مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصتیوں نے اس تعلقہ کو دائمی شہرت عطا کی ہے۔ 
یعقوب سروش، فضل اللہ قریشی،عبدالغفار،مرحومین نے دینِ حنیف کی سربلندی واپنی بے لوث سماجی خدمات کے لئے تادیریاد رکھے جائیں گے۔
 صالح بکران ،فصیح الدین،مرحومین کی تعلیمی خدمات ناقابالِ فراموش ہیں، صالح بکران کی بصیرت وبصارت کو تحریک کا نام بھی دیں تو غلط نہ ہوگا ، ان کا قائم کردہ،رحمانیہ اسکول یقینا ایک تحریک ہی کا نام ہے جہاں سے مولوی نصیرالدین صاحب و مولوی ریاض صاحب جیسے اساتذہ نے اپنے خونِ جگر سے اس پودے کی ایسی آبیاری کی کہ آج بھی اس اسکول سے فارغ طلباء اپنی ندرت خیالی کی وجہ سے سماج میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
حمید آرموری، شریف اطہر ،شکیل آرموری ودخترانِ آرمورحناعندلیب،کوثر فاطمہ، آمینہ جابری ریشمینہ، نے اپنی علمی صلاحتیوں کی بنا ادب میں ایک منفرد مقام بنایا ہے۔
معروف مصوروخطاط، سلیم اموری اپنی خداد صلاحتیوں کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھےجاتے ہیں۔ ان کی شاہکار پینٹنگس نے ریاستی سطح پر مقبولیت حاصل کی ہے۔
اسپورٹس میں جاوید بھائی نوجوانوں کے لئے سنگِ میل کا مقام رکھتے ہیں۔
 بہرحال ! یہ چھوٹا سا قصبہ اپنے اندر ایک تاریخ لئے ہوئے ہے۔ آج بتاریخ 5/اگسٹ ہی کے دن جناب فضل اللہ قریشی نے داعی اجل کو لبیک کہاتھاان کی یومِ وفات کی مناسبت سے مرحوم کی دختر و معروف ادیبہ حناعندلیب کا مضمون بطورِ خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔

 (مجیدعارف) 

****
  مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
 تو نے  وہ  گنج   ‌ہاۓ   گراں مایہ  کیا   کیے 

5اگسٹ 2001ء کا دن تھا، گلابوں کا مہینہ تھا،گھر کے آنگن میں گلاب کے جھاڑوں پر سرخ سرخ گلاب کھلے تھے،ہلکی بارش کی بوندیں انہیں چوم کر جیسے گلابوں کی مہک کو چارسو پھیلارہی تھی اور " گلاب ہیں ہم لوگ "کے خالق میرے بابا فضل اللہ قریشی اپنے مستوسط گھر میں ابدی نیند سوتے ہوئے آخری منزل کی جانب رواں دواں ہونے کے منتظر تھے؎
 یہ    داستان     درد کی
 ابھی نہ چھیڑ ہم نشیں
 کہ  موت آگئی انہیں
 نہیں   نہیں یقین نہیں

 فضل اللہ نام تھا، قریشیؔ تخلص اختیار کیا تھا،چار بھائی اور چار بہنوں میں چوتھا نمبر تھا۔پداپلی پیدائشی مقام تھا، ایمرجنسی کے بعد کے حالات نے انہیں آرمور پہنچادیا۔کم عمری ہی سے تحریکِ اسلامی سے متاثر تھے، اور ساری عمر دین حنیف کی سربلندی کے لئے کوشاں رہے۔ جناب مسعود جاویدہاشمی رقم طرازہیں:
 "وہ دینِ مبین کے مخلص داعی تھے، وہ پداپلی میں پیداہوئے، کاغذنگر پھرآرمور کو اپنامسکن بنایا،جہاں رہے ان کی داعیانہ روش قابل رشک رہیِ،ادب کے گہواروں سے شعر وسخن کی شمع روشن کرتے رہے،اپنی محدود آمدنی پر قناعت ان کا اہم وصف رہا،وہ اس شعر کے مصداق تھے؎
 ہم سے قائم ہے زینت عالم 
اس چمن کے گلاب ہیں ہم 
 ان کی شاعری میں امید ، زندگی،عزم وہمت ،حرکت وعمل ، خود اعتمادی بہت نمایاں تھی۔ہرمیدان میں انہوں نے طبع آزمائی کی اور اپنے پاکیزہ جذبات کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کو کوشش کرتے رہے۔
 بہت ذیادہ حساس طبعیت کے مالک تھے، چھوٹی سی بات پر بھی بہت ذیادہ متاثر ہوجاتے تھے۔اقبال کی خودی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اپنی خودی کی اس انداز میں حفاظت کرتے رہے،ان کی پوری زندگی اقبال کے اس شعر کی عکاسی کرتی ہے؎
 خودی نہ بیچ غریبی میں نام پید کر 
اور اسی کا سبق انہوں نے ہم بھائی بہنوں کو بھی دیاتھا۔بہت جری اور بیباک تھے، منافقانہ مصحلت پسندی سے سخت نفرت تھی۔سانحہ بابری مسجد کے بعد ذمہ داروں نے پیغام بھیجا کہ فوری کہیں منتقل ہوجائیں ،مگر باباہے کہ گھر ہی پر موجود تھے۔دریافت کرنے پر بتایا کہ روپوش ہونے کے بجائےگرفتاری کے لئے تیار ہوں۔ یہ چیزیں تو ہماری راہ کے سنگِ میل ہیں۔پولیس چار پانچ دن تک ہمارے گھر اطراف موجود رہی مگر الحمداللہ گرفتاری نہیں ہوئی۔
دوراندیش اور دوربین تھے،نوجوانوں سے خاص لگاؤتھا،انہیں تحریک سے قریب کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
 موجودہ امیر جناب حامدمحمد خان،کے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے کہ دیکھنا ایک دن وہ امیر حلقہ بنیں گے محترم کی تحریکی سرگرمیاں بڑی تفصیل و دلچسپی سے سنایاکرتے تھے اور ان کی صلاحتیوں کا عتراف کرکے خوش بھی ہوتے تھے۔خاص بات یہ تھی کہ ہر تحریکی سرگرمیوں کی تفصیل گھر میں بتایا کرتے تھے،اس طرح دلچسپ انداز میں گویا ہم سب لوگ دیکھ رہے ہیں۔اس طرح وہ ہمارے اندر تحریک سے لگاؤ پیداکرنے کو کوشش کرتے تھے۔
 اندازِ گفتگو بہت دلچسپ بلکہ پُرلطف ہوتا تھا، زبان دانی پر خاص توجہ دیا کرتے تھے۔
 لوگوں کے اندر چھپی صلاحتیوں کو پہچاننے کا وصف بھی موجودتھا، اور اسی کے مطابق کام دیا کرتے تھے۔غیر مسلموں میں بھی بے حد مقبول تھے۔بی جے پی اور وشواہندوپریشد کے ذمہ داروں سے بھی خوشگوار تعلقات تھے، رسالے و اخبار "گیٹورائی" اور"ریڈینس" پابندی سے پہونچاتے تھے۔مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرکے ان کی غلط فہمیاں دور کرنے اوراسلام سے قریب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
 شعبہء خواتین و گرلزاسلامک آرگنائزیشن کو مستحکم کرنے کی بہت فکر کیا کرتے تھے۔
 تحریکِ اسلامی سے والہانہ عشق تھا، ان کی اس خوبی کو معروف ادیب تمکینؔ آفاقی،(اللہ سبحان تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔آمین)اس طرح بیان کرتے ہیں:
 "فضل اللہ قریشی کی جس خوبی سے میں بہت ذیادہ متاثر ہواہوں، ان کی تحریک اسلامی سے گہری و مخلصانہ وابستگی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے، میں برسوں موصوف کے ساتھ رہاہوں،اس پورے عرصہ میں میں نے انہیں تحریک اسلامی کا طوطئی ہزارداستاں پایا ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع اور حافظہ غضب کا تھا۔بہت اچھی تحریری و تقریری صلاحیت کے مالک تھے۔تحریکی اسلامی کے مشن و اسلام کے آفاقی پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی بے قراری وکوشیشیں قابل ستائش و قابل تقلید تھیں،استدلال کے تو وہ بادشاہ تھے بڑے سے بڑے مخالف کو بھی علمی دلائل سے قائل کردیتے تھے۔
تحریکی شخصتیوں سے متعلق ان کی معلومات بہت وسیع تھیں، مولانامودودی سے لے کر دورِ حاضر کے ذمہ داران جماعت تک بہت سے لوگوں سے متعلق وہ بہت سی باتیں جانتے تھے بلکہ اپنی معلومات سے محفلوں کو گرماتے رہتے تھے۔
 وہ کسی سے بھی مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ بڑی سے بڑی شخصیت کے ساتھ برابری کی سطح پر پوری خود اعتمادی سے تبادلہ خیال کرتے۔اکثر مخاطب ان کے دلائل کو ماننے پر مجبور ہوجاتے۔ مسلم نوجوانوں سے ان کا لگاو غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ ان کے جوہر کو چمکانے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے دینِ حنیف سے انہیں وابستہ کرنے کے جذبے کے تحت زبان و بیان کی تمام صلاحیتوں سے کام لیتے تھے۔اور اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں نے تحریکِ اسلامی سے وابستگی اختیار کی بلکہ اس کے بہترین دست و بازو بن گئے۔
ان کی زندہ دلی اور خوش مزاجی کا تذکرہ بھی یہا ں ضروری سمجھتا ہوں ۔
 اللہ تعالیٰ نے انہیں عجیب حسِ مزاح عطا کی تھی، جس محفل میں یٹھتے اپنی بذلہ سنجیوں سے خوشگوار بنادیتے، ہر بات میں سے مزاح کا پہلو تلاش کر کے لوگوں کو بے ساختہ ہنسے پر مجبو رکردیتے تھے۔ شعر و سخن کے بچپن ہی سے دلدادہ تھے۔اور یہی ذوق تھا جو ہماری قربت کا باعث بنا اور بعد میں قریب ترین رشتہ داری کا۔مگر جو بات انہیں ہم سب میں ممتاز کرتی ہے وہ ان کا مطالعہ و حافظہ تھا، ہمارے لئے تو اپنے اشعار یاد رکھنا مشکل ہوتا تھا، اور قریشی صاحب کا عالم یہ تھا کہ وہ سیکڑوں بر محل اشعار ان کی نوک زبان پر رہتے، اساتذہ سخن سے لے کر جدیدشعراءکا کلام انہیں ازبر تھا، با الخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ شعراء و ادباء کو انہوں نے خوب پڑھا تھا،اوراپنے اس مطالعہ کا انہوں نے خوب استعمال بھی کیا۔
 اللہ تعالیٰ موصوف کے خلوص و جدوجہد کو قبول فرمائے، اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین 
محترم تمکین آفاقی مرحوم بابا کے بہنوائی ہوتے ہیں۔ بابا کے انتقال پر آرمور کی مشہور و معروف شخصیت جناب یعقوب سروش، مدیر بساط نے ان لفظون میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا:
 "آدھی رات تھی کہ اللہ کے درویش صفت بندے فضل اللہ قریشی کے نام پیام اجل آیا اور چشم زون میں وہ اپنے خالق و پروردگار کے حضور جاپہنچے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ 
 گزشتہ چند ماہ سے وہ دل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔اسی وجہ سے انہوں نے دو تین ماہ قبل ہی مقامی امارت سے استعٖفٰی دے دیاتھا۔مرحوم جماعت سلامی کے قدیم رفقاء میں سے ھے۔ ان کے روابط ضلع اور حلقہ سے لے کر کل ہند سطح تک تھے۔ وہ ایک شعلہ بیان خطیب تھےاور کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی اردو بولتے تھے۔ اعلیٰ درجہ کے سخن فہم تھے۔علامہ اقبال کے کئی اشعار ان کے نوک زبان پر تھے۔اپنی بزلہ سنجی اور خوش مزاجی کی وجہ سے وہ اپنے احباب میں کافی مقبول تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم مغفور کو اعلیٰ علین میں جگی عطا فرمائے۔اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
 بابا،علامہ اقبال کی فکر سے کافی متاثر تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے تمام بیٹوں کے ناموں کے ساتھ "اقبال" اضافی نام رکھ کر اقبال سے اپنی بے پناہ عقیدت کا ثبوت دیا تھا جیسے، فریس اقبال، انیس اقبال ،صہیب اقبال ، مصعب اقبال ، مونس اقبال ، انس اقبال۔
 ماہر القادری کا سلام بڑے عقیدت کے ساتھ پڑھتے،نبی ﷺ کے ذکر پر بڑے والہانہ انداز کا لب ولہجہ اختیار کرتے۔ اسلامیات کے ٹیچر تھے۔دسویں جماعت کے طلباء کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ باباکو روزانہ اپنی کلاس میں مدعو کریں،طلباء سے بڑی محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔
 رحمانیہ اسکول اورجناب صاؒلح بکران کے بغیر بابا کی زندگی کا تذکرہ ادھورہ رہے گا۔
صالح بکران تایا سے تحریکی روابط پر استوار ہونے والا دوستی کارشتہ بعد میں دو قالب ایک جان والا ہوکر رہ گیا تھا۔ غفار تایا، بکران تایا اور بابا یہ تینوں ایک مثلث کے مانندآرمور کے تحریکی سفر کے ساتھی رہے۔
 اللہ سبحان تعالیٰ ان سب کو غریقِ رحمت کرے اور ان کی کوشیشوں کو قبول فرمائے۔آمین 
صالح بکران تایا کے انتقال پر قطعہ لکھا؎ 
بڑی وحشت بڑی دیوانگی محسوس کرتا ہوں
 جگر میں درد آنکھوں میں نمی محسوس کرتا ہوں
 روان ہے زندگی کا قاگلہ رونق بھی ہے لیکن
 میرے بکران بھائی کی کمی محسوس کرتا ہوں
 تحریریکی مصروفیات کے سبب پر زیادہ تر دوروں پر رہتے، اپنی کثیرالعیالی، اور قلیل ترین آمدنی کے باجود وہ کبھی بھی دنیا کی طرف راغب نہیں ہوئے۔ عجیب درویشانہ، قلندرانہ مزاج پایا تھا۔دنیاوی آسائیشوں کی طرف نہ کبھی راغب ہوئے اور نہ اس کی طلب کی۔وہ ہم سب کو بھی بے نیازی کا سبق دیتے تھے۔کبھی ہم بھائی بہنوں کو کسی کے گھر کا تذکرہ کرتے ہوئے سنتے تو ناگواری کا اظہار کرتے تھے۔
رحمانیہ اسکول گویا بابا ہی کے لئے بنا تھا۔ گھر کے راستے کی تنگی کی وجہ سے ہم نے بابا کے جسدخاکی کو رحمانیہ اسکول منتقل کیا تھا۔تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ آخری دیدار کرسکیں، انتقال کے بعد محترم لطیف مولوی صاحب، نے کہاکہ "  میں نے بانیء مدرسہ محترم صالح بکران صاحب سے سنا تھا کہ رحمانیہ اسکول ، فضل اللہ صاحب کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔آج وہ رحمانیہ اسکول سے ہی آخری سفر پر روانہ ہوئے، یوں لگتا ہے جیسے، صاؒلح بکران مرحوم کی بات سچ ثابت ہوئی۔
 ان کےکئی شاگرد آج تحریکِ اسلامی کے ذمہ داروں میں سے ہیں۔
 اکھیل بھارتیہ ودیا پریشد(ABVP) کے مقامی تنظیم کے صدر ایک مسلمان نوجوان تھے، جناب شیخ حسین، ان کو اس تنظیم میں دیکھ کر والدِ محترم بے چین رہاکرتے تھےاور کہا کرتے تھے کہ مجھے اس نوجوان تک پہونچ کراسکو واپس لانا ہے۔ بعد میں غالبا بابا کی کوششیوں سے وہ تحریک کے فعال رکن ثابت ہوئے۔
 اکثر کہا کرتے تھے" بڑی عقیدت و ؐمحبت سے ہمارے گھر میں بھی دورِ جہالت کی تمام رسومات ہواکرتی تھیں،مگر میرے صرف ایکبار کہنے پر والدہ محترمہ نے تمام رسومات کو یکلخت چھوڑدیاتھا۔
 اپنے کلام میں وہ کہتے ہیں ؎
 کیا جو عہدِ وفا ان سے استوار رہے 
خزاں کا دور ہو یا موسمِ بہار رہے
 ہمارے دور کے آذر بڑے منافق ہیں 
خلیلِ وقت دے کہدو کہ ہوشیار رہے
 انتقال کے وقت جنازے کے ساتھ بہت سےغیرمسلم اور پولیس محکمہ کے لوگوں نے کندھا دینے کی درخواست کی۔غیر مسلموں نے اپنی دوکانوں کےشٹر گراکر احتراماَ باہرنکل کر کھڑے ہوگئے تھے۔ ایک بزرگ خاتون کا تبصرہ تھا: "آج آرمور خالی ہوگیا... مولانا آرمور کی ناک کے مانند تھے۔"
عجز وعاجزی کے ساتھ اللہ تبارک تعالیٰ سے دعاہے کہ بابا کو جنت الفردوس مین اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے حسنات کو قبول فرمائے سیات کو درگزر کرے۔ہم تمام بہن بھائیوں کو بھی ان کے پاکیزہ صفات اپنانے کی توفیق دے۔ آمین 

 ******* 

 مضمون نگار: حناعندلیب


 رحمانیہ اسکول آرمور کے مایہ نازاساتذہ کی ایک یادگار تصویر:
 ریاض صاحب، کمال صاحب، نصیر صاحب،سعید صاحب، فضل اللہ قریشی صاحب،خواجہ کمال صاحب،عبدالرحمٰن صاحب،بابر صاحب، فہیم صاحب،سیف علی صاحب،مقیت صاحب،الیاس صاحب،احمد علی صاحب ودیگر اساتذہ کرام دیکھے جاسکتے ہیں
 مشہور زمانہ شاہ بانو کیس کی احتجاجی ریالی زیرِ اہتمام مسلم پرسنل لا بورڈ،شاخ آرمور:
 تصویر میں جناب فضل اللہ قریشی ،جناب یعقوب سروش  ودیگر احباب دیکھے جاسکتے ہیں


 جماعت اسلامی کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں جناب یعقوب سروش، جناب فضل اللہ قریشی مرحومین ودیگر احباب  دیکھے جاسکتے ہیں

3 comments:

  1. مزکورہ بالا تمام بزرگوں کو اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائےآمین خاص طور سے حضرت قبلہ فضل اللہ قریشی صاحب کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین

    ReplyDelete
  2. Mashallah very great personality...May Allah grant highest position is jannah

    ReplyDelete