ممتازشاعرکبیراحمد شکیلؔ: اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

21.7.20

ممتازشاعرکبیراحمد شکیلؔ: اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

ممتازشاعرکبیراحمد شکیل: اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں 


 بودھن ضلع نظام آباد کے معروف، ہردل عزیز، معتبر، مشاق اور نمائندہ استاد شاعر جنہیں دنیائے ادب کبیر احمد شکیلؔ کے نام سے جانتی ہے، آپ نے آج یعنی 20 جولائی 2020ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ ادبی دنیا میں ان کا نام محتاج تعارف نہیں۔ لیکن آج ان کی شخصیت کے چند پہلوﺅں پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
 کبیر احمد شکیلؔ نے 21 سال کی عمر یعنی 1974ء میں شعر گوئی کا آغاز فرمایا۔ 46 سالوں کے طویل عرصے میں آپ کا شعری سفر اپنی عظمتوں کو مزید بلند کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ آپ نے سادہ مگر فصیح زبان میں کلام کہے۔ آپ بنیادی طور پر نعت کے شاعر تھے۔ آپ کی نعتوں سے والہانہ عشق رسولﷺ ظاہر ہوتا ہے، بہت عمدہ انداز میں اور سراپا ادب بن کر شکیلؔ صاحب نے سرکار دو عالم ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کی۔ایک ہی موضوع پر مختلف زاویوں سے مختلف اشاروں کے ذریعے کلام کرنا آپ کی خوبی ہے۔ (مثال کے طور پر نیچے لکھی گئی "معتبر" اور "روشنی"ردیف والی نعت لکھئیے) آپ کا ملک کے بہترین نعت گو شعراء میں شمار ہوتا ہے۔
 نعتوں کے علاوہ کبیر احمد شکیلؔ نے غزلیں بھی کہی، غزل میں بھی آپ تعمیری شاعری کرتے ہیں، بڑے سلیقے سے اصلاح کے لیے معاشرے کی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 
شاعری کے علاوہ کبیر احمد شکیل نے تعلیمی میدان میں بھی زبردست خدمات انجام دیں۔ صدر مدرس Head Master کے عہدے سے حسن خدمات پر سبکدوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی شکیل صاحب نے تعلیمی خدمات جاری رکھا۔ اسٹانڈرڈ جونئیر،بودھن،میں بحیثیت پرنسپل اپنی بے لوث خدمات انجام دیں۔
ان تمام صفات کے باوجود کبیراحمدشکیل انتہائی منکسر المزاج تھے، آپ کے ملنے والوں میں آپ کی دینداری، خوش اخلاقی، دیانت داری، نرم مزاجی، شیریں سخنی مشہور تھی۔ جو کوئی ان سے ملتا ہے ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہو جاتا۔ کبیر احمد شکیل صاحب کے سانحہ ارتحال سے جو خلاء پیدا ہوئی اس کا پر ہونا بے حد مشکل ہے
 اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
 روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے 

 کبیر احمد شکیلؔ کاکلام ملاحظہ فرمائیے۔
 نعتیں 
 اہلِ نظر نے دیکھا سمجھا افضل اعلیٰ ارفع ہے
بعد خدا سرکار کا رتبہ افضل اعلیٰ ارفع ہے
 دنیا طلبی میں جو گزری ضائع ہوئی وہ عمر
 تمام یادِ نبی کا لمحہ لمحہ افضل اعلیٰ ارفع ہے

 کوئی عالم نہ دستِ ہنر معتبر
 آپ کہہ دیں جسے معتبر معتبر 
معتبر کچھ تو ان کو سمجھ کر ہوئے
 ہوگئے کچھ انہیں دیکھ کر معتبر

 عقل اغیار کو کہتی ہے مداوا غم ک
ا دل مگر ہے کہ محمد کو صدا دیتا ہے

 تیئیس (23) سالہ عہدِ رسالت کی روشنی
 صدیوں کو دے رہی ہے ہدایت کی روشنی 
وہ روشنی عروج کو جس کے نہیں زوال ہے
 وہ چراغِ ختمِ نبوت کی روشنی 

 غزلیں 
 زمانہ یہ سمجھتا ہے فقط اخبار پڑھتا ہوں 
مگر میں آج کے انسان کا کردار پڑھتا ہوں
 ہے کتنا کیف چودہ سوبرس پہلے کے لکھے میں 
 مزہ کچھ اور ملتا ہے جو سوسو بار پڑھتا ہوں

 جب عقل و فہم کو حا صل کمال ہوتا ہے
 تو امتیازِ حرام و حلال ہوتا ہے
 کمال یہ تو نہیں ہم کسی کے ہوجائی
ں کسی کو اپنا بنانا کمال ہوتا ہے

 خود متفق ضمیر ہی مجھ سے مرا نہیں
 دنیا میں اس سے بڑھ کے کوئ سانحہ نہیں

  الفتیں رخصت ہوئیں دلمیں عداوت آگئ
 کیسے ہاتھوں میں خدایا اب قیادت ہوگئ 
موم دل انسان بھی پتھر کلیجہ ہوگئے 
گاؤں کے ماحول میں جب سے سیاست آگئ

 دشمنوں کی جو صف میں ٹہرا تھا
 رات دن ساتھ میرے رہتا تھا
 تنگ تھا دامنِ طلب ورنہ
 دینے والا تو دل کا دریا تھا
 وہ مقدس کتاب بک نہ سکی
 صرف ا خلاص جس کا ہدیہ تھا 

****
 مضمون نگار: ڈاکٹر رضی شطاری

 یومِ تاسیس ریاست تلنگانہ کے موقع پر 2جون 2016ء کونظام آباد میں منعقدہ کل ہند مشاعرہ میں جناب کبیراحمدشکیلؔ مرحوم دیگر شعراء کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔


  بودھن ضلع نظام آباد میں 28نومبر2018ء کو منعقدہ کل ہند نعتیہ مشاعرہ میں دائیں سےجناب ریاض تنہا، جناب معین راہی، جناب اقبال شانہ، جناببکبیر احمد شکیل (مرحوم) ڈاکٹر رضی شطاری دیکھے جاسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment