گلے ملنے کے آداب: مجیدعارف نظام آبادی - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

23.5.20

گلے ملنے کے آداب: مجیدعارف نظام آبادی


گلے ملنے کے آداب 

 عید ساری دنیا کیلئے جہاں مسرت و شادمانی کا پیغام لاتی ہے وہیں کچھ لوگوں کیلئے پریشانی وفکر کا موجب بھی بنتی ہے۔ عید کی مسرتوں میں شرکت کیلئے گلے ملنے کے عمل سے گزر نا ضروری ہوتا ہے نا...؟؟ اسی فکرسے گلے ملنے کے عمل سے نحیف و ناتواں اس طرح خوف کھاتے ہیں جیسے سخت ماسٹر جی کو دیکھ کرکوئی شریر شاگرد نو دو گیارہ ہو جاتا ہے۔ 
 مرزا تخیل بیگ آنسوؔ کا شمار بھی ان ہی افراد میں ہو تا ہے۔ بانس کی طرح لمباقد اور بانس ہی کی جسامت کاااپنا جسم جسےوہ فخر سے اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ دور سے یوں محسوس ہوتا ہے وہ خود چل نہیں رہے ہیں بلکہ شیروانی یہ خدمت انجام دے رہی ہے۔ عید جوں جوں قریب آتی ہے ان کے چہرے کا رنگ دیکھنے لائق ہو جاتا ہے عید کی آمد کے پیش نظر گزشتہ دنوں انہوں نے" گلے ملنے کے آداب“ کے عنوان سے ایک جلسہ بھی منعقد کروایا تھا۔ مختلف اخبارات کے ذریعہ تشہیر بھی کروائی کہ گلے کسطرح ملنا چاہیئے۔ ایک ہفتہ کی تربیت کا انہوں نے مفت انتظام بھی کر رکھا تھا۔ اس تربیتی کیمپ میں مرزا تخیل بیگ آنسونے گلے ملنے سے لے کر موت کو گلے لگانے تک سیر حاصل بحث کی اور علمی کم عملی ثبوت زیادہ دیا۔ اور شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس مفاد پرست و فرقہ وارانہ ماحول میں گلے ملنے کی کم اور گلے لگانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ 
 آپ کچھ ہی بھی کہیں مر زاتخیل بیگ آنسو کی اس رائے سے ہم بھی متفق ہیں. ہم نے بھی اپنی اچھی بھلی آنکھوں سے عید کے دن لوگوں کو گلے ملتے کم اور حیرت انگیز کمالات دکھاتے ہوئے زیادہ دیکھا ہے۔ عید کی نماز کا اختتام ہوتے ہی لوگ اس طرح دوڑتے ہیں گویا گلے ملنے کا نہیں گلے کاٹنے کارادہ ہے ایسی بھگدڑمچتی ہے کہ خدا کی پناہ عید گاہ سے متصل احاطہ میں ابدی نیند سونے والے بھی ہڑبڑا کر اٹھ جاتےہوں گے ؟
جب گلے ملنے کا دور شروع ہوتا ہے تو کمزور وبے بس ہڈیوں کی چیخیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ موٹے تو صرف توند سے توند ملانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ بعض تو مقابل کے کندھوں پر اپنا جسم اس طرح ڈالتے ہیں جسے سرکس میں جو کر جھونے والا منظر پیش کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں پستہ قد والوں کے حرکات و سکنات قابل دید ہوتی ہیں۔ ان کی ناک توصرف 
توند کو بوسہ دے کر مطمئین ہوجاتی ہے لیکن صاحبِ توندمطمئین نہیں ہوتے۔ عجیب طرح کی الجھن کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ ہمار مشورہ ہے کہ ایسے لوگ ہیل والے شوز کے بجائے اسٹول“ ساتھ رکھ لیا کریں۔ 
عیدین کے موقعوں پر یہ بڑی سہولت بخش چیز ہے آزمائش شرط ہے...............؟
 گلے ملنے کے بہانے اگر کوئی آپ کی کمر میں خلوص سے ہاتھ ڈال کر زور سے جھٹکا دے توسمجھ لیجئے کہ یہ آپ کا دوست نما دشمن ہے ۔ انتقام لینے کیلئے آپ کو آزما کر دیکھ رہا ہے۔ مصاحفہ کے ذر یعے بھی آپ مقابل کے ارادے بھانپ سکتے ہیں۔ ہاتھ زور سے دبا کر وہ آپ کی ” شامت‘‘ کو للکارنے کی کو شش کر تا ہے . بدلے میں آپ ” قوت بازو“ کے سہارے، اس انداز سے گلے لگایئے کہ اس کو چھٹی کا دودھ یاکم ازکم ڈبے کاپاوڈرتو یادآجائے.....
 آپ کے وہ قریبی دوست جو قرض حسنہ لے کر ہنس ہنس کر ٹال رہے ہیں اور آپ ہیں کہ مروت میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ عید سے اچھا موقع اور آپ کو کہاں ملیگا.....؟؟ تین تین مرتبہ ’’ مخصوص انداز میں گلے مل کر ثابت کریں کہ آپ بھی اپنے ہنر میں یکتا ہیں .......
 نحیف و ناتواں افراد سے ہماری گزارش ہے کہ وہ عید کی آمد سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ اس مسئلہ کا کوئی آسان سا حل ڈھونڈ نکالیں۔ ہماری تجویز گر قبول است ....
 ایسے حضرات عیدین کے موقع پرکسی لحیم شحیم شخص کی خدمات حاصل کر لیں۔ تاکہ وہ آپ کے بدلے میں لوگوں سے گلے مل سکے................ہماری نظر میں یہی ایک کامیاب حل ہے۔ورنہ آپ کی مرضی..

   (نوٹ: ویسے بھی کرونا وائرس کی وجہ سے گلے ملنے پر پابندی ہے۔اس مضمون کو اتنی دلچسپی سے پڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟)

*****
 از قلم: مجید عارف نظام آبادی 
(مزاحیہ مضامین کے مجموعہ " خرافاتِ قلم " سے)

No comments:

Post a Comment