انیس فاروقی: رشتوں کوجوڑنے والا افسانہ نگار - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

19.5.20

انیس فاروقی: رشتوں کوجوڑنے والا افسانہ نگار


انیس فاروقی: رشتوں کوجوڑنے والا افسانہ نگار 

 اردو افسانے کے فروغ میں جنوبی ہند اور خاص طور سے حیدرآباد دکن اور اضلاع میں ضلع نظام آباد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ میں پریم چند‘کرشن چندر‘عصمت چغتائی‘ راجندر سنگھ بیدی‘سعادت حسن منٹو وغیرہ عظیم افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ان افسانہ نگاروں نے اپنے فن سے اردو افسانہ نگاری کو کمال تک پہونچایا۔تقسیم ہند کے بعد اردو کے نامور افسانہ نگار پاکستان میں رہ گئے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جن علاقوں میں اردو پروان چڑھتی رہی ان میں جنوبی ہند کا علاقہ دکن پیش پیش رہا۔ خاص طور سے حیدرآباد اور نظام آباد نہ صرف جنوبی ہند بلکہ ہندوستان اور عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والے نمایاں شہر بن گئے۔ جامعہ عثمانیہ سے فارغ لائق سپوتوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی اورجہاں صحافت کے افق پر” سیاست‘ رہنمائے دکن‘منصف ‘اعتماد اور دیگر اخبارات نے اردو کی روشنی کو عام کیا تو وہیں شاعری میں مخدوم‘شاذ‘اوج یعقوبی‘سعید شہیدی‘علی احمد جلیلی‘رحمٰن جامی وغیرہ نے اپنے فن سے اپنا نام روشن کیا۔ افسانہ نگاری میں جیلانی بانو‘رفیعہ منظورالامین‘عاتق شاہ‘ بیگ احساس‘عوض سعید اور اقبال متین اور دور حاضر کے چند ایک افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات سے حیدرآباد اور نظام آباد کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔نظام آباد کو حیدرآباد کے بعد فروغ اردو کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ شہر نظام آباد سے تعلق رکھنے والے اور حیدرآباد دکن کے ادبی افق پر جو نئے افسانہ نگار ابھر کر سامنے آئے اور اپنے قلم سے اپنے فن کا لوہا قومی و بین الاقوامی سطح پر منوایا ان میں ایک اہم نام محمد انیس فاروقی کا بھی ہے۔
 محمد انیس فاروقی(1953-2019) نظام آباد سے تعلق رکھنے والے نامور سماجی افسانہ نگار گزرے ہیں۔ حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ہے ۔وہ پیشے سے سول انجینیرتھے۔ اور بقول رفیعہ منظور الامین ” انیس فاروقی پلوں کی تعمیر کرتے ہیں تو ادب میں بھی پلوں کی تعمیر کر رہے ہیں“۔یہ پل آگہی اور ادراک کے پل ہیں۔ نظام آباد کے علمی گھرانے سے ان کا تعلق رہا ہے۔ ان کے بڑے بھائی محمد ایوب فاروقی صابرؔ مرحوم صاحب طرز ادیب و شاعر گزرے ہیں۔ انیس فاروقی کوادبی ورثہ اپنے بھائی سے ملا۔ انیس فاروقی کی ابتدائی تعلیم نظام آباد ہی سے اردو میڈیم سے ہوئی ۔ پالی ٹیکنیک سے جے ٹی ایس کیا۔ اور محکمہ اے پی آئی آئی سی میں بہ حیثیت انجینیر ملازمت شروع کی۔اور جنرل مینیجر انجینئر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد کے علاوہ انہیں محبوب نگر‘نظام آباد اور کرنول جیسے اضلاع میں رہنے کا موقع ملا۔جہاں وہ ان علاقوں کی ادبی انجمنوں سے وابستہ رہے۔اور اپنی شعری و ادبی تخلیقات پیش کرتے رہے۔انیس فاروقی کے تحریر کردہ افسانے اپنے وقت کے مشہور ادبی رسائل شمع‘بیسویں صدی‘بانو‘پاکیزہ آنچل‘مشرقی آنچل وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔ان کا پہلا افسانہ نامور رسالے”شمع “ میں1975ءمیں شائع ہوا۔ ان کے افسانے بزم سہارا‘ماہنامہ آندھراپردیش ‘ماہنامہ تلنگانہ‘قومی زبان اور اردو اخبارات کے ادبی سپلمنٹوں میں شائع ہوتے رہے۔ اردو اکیڈیمی نے جب سے اردو کے ابھرتے ادیبوں اور شاعروں کو اپنی تخلیقات کی اشاعت کے لئے مالی امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس وقت سے محمد انیس فاروقی نے بھی اپنے افسانوں کے مسودات اردو اکیڈیمی میں بغرض اشاعت پیش کرتے رہے اور اردو اکیڈیمی کی جزوی مالی امداد سے ان کے افسانوں کے سات مجموعے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ”ریزہ ریزہ چاندنی“ (1994ء)میں شائع ہوا جسے اردو افسانوں کے حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگر ان کے مزید افسانوی مجموعے ” کرچی کرچی خواب“ (1998ء)‘ ” سائبان“ (2003ء) ‘ ”گماں سے آگے“ ( 2006ء) ‘ ” شفق کے سائے“ ( 2009ء) ” تند دھڑکنوں کا بھنور“ (2012ء) اور ” دل کی وادی میں“(2017ئ) شائع ہوئے۔ انیس فاروقی ایک اچھے شاعر بھی تھے۔حال ہی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ” بے خواب دریچے“ منظر عام پر آکر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔
 کہا جاتا ہے کہ افسانہ نگار اپنی کہانی کا مواد اپنے عہد‘اپنے ماحول اورا اپنے سماج سے لیتا ہے۔انیس فاروقی بھی ایک درد مند دل رکھنے والے فنکار تھے۔ انہوں نے اپنے سماج کا گہر ا مطالعہ کیا اور اپنے مشاہدات اور تجربات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔انسانی زندگی کے تین ادوار ہوتے ہیں۔ بچپن‘جوانی اور بڑھاپا۔ انیس فاروقی نے شروع شروع میں جو کہانیاں لکھی ہیں اس کے لئے زندگی کی اس درمیانی کڑی کا انتخاب کیا۔یہ عمر کھلنڈرے پن سے سنجیدگی تک سفر کرتی ہے محبت ‘شادی‘تعلیم‘دوستی‘قرابت داروں کی نگاہوں میں اپنی شخصیت کا تعین ‘معاشرتی زندگی کے آداب کی تربیت‘رکھ رکھاﺅ ‘برے بھلے کی پہچان کی ابتدائ‘معصوم جذبے ‘کچھ بننے کی خواہش‘اپنی آرزﺅں اور امنگوں کی تکمیل کے لئے ضد اور ماحول سے اور روایتوں سے ٹکراﺅ‘کچی عمر کے کچے جذبے رومان پرور فضاﺅں میں جنم لیتے ہیں۔اور زمانے کے سرد گرم تھپیڑوں کی زد میں آکر اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔پرشباب آنکھوں میں مسرت اور سرور کی جگہ نمی تیرنے لگتی ہے۔ انیس فاروقی کی اکثر کہانیوں کے تانے بانے ایسی ہی فضاﺅں میں بنے گئے ہیں۔ ان کے کردار زندگی کے ہمک سے بھرپور ہوتے ہیں۔ کہانیوں کی فضاءرومان پرور فضاﺅں سے اٹھتی ہے۔ آنکھوں میں رنگین خواب جنم لیتے ہیں۔پھر اڑتے ہوئے لمحے حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر زخمی ہوجاتے ہیں۔ ان زخموں سے لہو رستا ہے ۔ پھر وقت مرہم بن جاتا ہے۔ مد و جزر کے بعد گہری جھیل کے مسطح پانی کا سا سکون۔
 انیس فاروقی کے افسانوی سفر پر طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک سماجی افسانہ نگار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے تخلیق کار کی طرح اپنی کہانیوں کے موضوعات سماج سے حاصل کرتے ہیں۔ انیس فاروقی اپنے دور کے مختلف واقعات و حوادث پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان واقعات کو بنیاد بنا کر مشاقی سے اپنے افسانوں کے پلاٹ تیار کرتے ہیں۔ اور اس میں اپنے فن کی ہنر مندی سے تخلیق کا جادو جگاتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کے لئے زماں و مکاںکے طور پر اپنے عہد اور شہر حیدرآباد کی تہذیبی فضاءکو پیش کرتے ہیں۔ انیس فاروقی کے افسانوں میں حیدرآبادی معاشرہ جھلکتا ہے۔ان کے کردار حیدرآباد کے متوسط گھرانوں کی عکاسی کرتے ہیں۔متوسط طبقے کے مسلم خاندانوں کے حالات‘نوجوانوں کی نفسیات‘محبت ‘شادی اور گھریلو زندگی سے معمور مشرقی تہذیب کے نظارے ان کے افسانوں کی بنیاد ہیں۔ چند افسانوں میں ضمیر اور بے ضمیری کی کیفیت جھلکتی ہے۔سیاسی داﺅ پیچ بھی ان افسانوں میں دکھائی دیتے ہیں۔سیاست دانوں کے سیاہ کرتوت اور عوام کے جذبات سے کھلواڑ کے نقشے بھی انہوں نے اپنے افسانوں میں پیش کئے ہیں۔
 انیس فاروقی افسانہ نگاری میں اپنے مطمع نظر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ” مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے اطرف و اکناف کے ماحول سے اپنی کہانی کے موضوعات حاصل کرتا ہوں۔ میرے موضوعات ہر طبقہ کے سماجی مسائل ہیں۔ میں اپنی کہانی میں اصلاح کا پہلو غالب رکھتا ہوں۔ کیوں کہ میرا ایقان ہے کہ قلم اللہ کی امانت ہے اسے شر کے بجائے خیر کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔میرے کردار اپنے ماحول کا حصہ ہیں۔ یہ کردار حق کے متلاشی ہیں اور کہانی کے انجام کے طور پر انہیں ان کی منزل مل جاتی ہے۔ میرے افسانوں میں محبت کے پاک جذبات کی عکاسی ہوئی ہے۔ میں نے ہندوستان کے شہروں خاص طور سے حیدرآباد کی فضاءکو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔میں نے بعض نقادوں کی آراءکو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے موضوعات میں وسعت اور تنوع پیدا کیا۔ اور دہشت گردی‘موقع پرست سیاست‘ جرائم اور انسانیت کو درپیش مسائل پر بھی قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ قارئین کو اس مجموعہ میں شامل کہانیاں اور افسانے بھی پسند آئیں گے۔ اور ان کی قیمتی آراءمجھے اپنے فن کو مزید نکھارنے میں معاون ثابت ہوںگی۔“
 ( محمد انیس فاروقی۔ میری کہانی کا سفر۔ دل کی وادی میں حیدرآباد۔2017ص۔20)
 ان کے افسانوی مجموعہ” دل کی وادی میں“ افسانے ” کس چڑیا کا نام ہے“ اور ”محنت کی روٹی “ میں سیاست دانوں کے کرتوت پیش کئے گئے ہیں۔افسانہ محنت کی روٹی میں انیس فاروقی کا انداز بیان ملاحظہ ہو:
” دیپک ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح جب لوٹ رہا تھا تو راستہ میں اس کی نگاہ شاہراہ سے دور ایک نیم کے درخت پر پڑی جس کے سائے میں ایک کسان چادر بچھائے اپنے لڑکے کے ساتھ نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ گیا تھا ۔ وہ اپنی کار روک کراس کے پاس پہنچ گیا جس کے قریب توشہ دان رکھا تھا ۔ اس نے اسے جگایااور پوچھا ”کاکا بہت میٹھی نیند سورہے ہو؟ یہ سن کر کسان نے جواب دیا ”ہاں بیٹا دھوپ میں کام کرنے کے بعد محنت کی دو روٹی کھانے اور ندی کا میٹھا پانی پینے کے بعد میٹھی نیند آہی جاتی ہے ۔ یہ بات تم نہیں سمجھ سکو گے !! اور وہ سوچنے لگا ”کاکا نے کتنی گہری بات ہی ہے “ پھر اسے اپنی ماں کی کہی ہوئی بات یاد آگئی۔” بیٹا! ہمیں اپنی محنت کی روٹی پر بھروسہ کرنا چاہئے“۔
 ( محمد انیس فاروقی۔ افسانہ محنت کی روٹی۔ دل کی وادی میں ۔ص29)
 دیگر افسانے ہماری تہذیب کے مختلف رنگ پیش کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب‘محبت کی سچائی‘جذبوں کی پاکیزگی اور رشتوں کا تقدس نظر آئے گا۔ ”دل کی وادی میں“ ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔” خالی ہاتھ“ افسانے میں دولت کی عارضی چمک کے آگے اقدار کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ حسن کمال دنیاوی آسائشوں کے حصول میں تمام جائز ناجائز طریقوں سے دولت کما کر مادی آسائشیں حاصل کرلیتا ہے لیکن اس کی بیٹیوں کی زندگی میں آنے والے حالات اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ اس کی ماں کے کہے ہوئے الفاظ ”نہیں جمال ، نہیں ۔ تمہاری سوچ غلط ہے ۔ تمہیں اپنی سوچ بدلنا ہوگا۔ ہر حال میں جائز ،جائز ہے اور نا جائز نا جائز ۔! اسے ٹھوکر کھانے کے بعد درست لگتے ہیں۔انیس فاروقی کے افسانوں کے اکثر انجام چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ افسانہ آدرش وادی کا انجام دیکھئے۔
 ”منوہر لال کے لئے اب کڑی آزمائش کا وقت تھا۔ اس کے مددگار پارٹی رفقاءکافی دوڑ دھوپ میںمصروف ہوگئے اور ہائی کمان کے آگے عددی طاقت کا مظاہرہ بھی کروانا پڑا ۔ اور پھر ہائی کمان کا فیصلہ منوہر لال کے حق میںہوگیا اور اس کا نام چیف منسٹر کے عہدے کےلئے گورنر صاحب کو پیش کردیاگیا۔ 
 آج چیف منسٹر کے عہدے کا حلف لینے کے بعد وہ سوچ رہا تھا کہ ر ام چرن کے حامیوں کو خریدنے کےلئے اسے کتنی بیش بہادولت لٹانی پڑی اور اپنے آدرش کا گلا گھونٹنا پڑا۔“
 ( محمد انیس فاروقی۔ افسانہ آدرش وادی۔ دل کی وادی میں ۔ص24)
 انیس فاروقی کے یہ اور اس مجموعے میں شامل دیگر افسانے عشق و محبت‘رشتوں کی پاسداری ‘مشرقی تہذیب کی عکاسی اور عہد حاضر کے مثبت و منفی رجحانات کے عکاس ہیں۔ان افسانوں میں منظر نگاری‘مکالمہ نگاری اور نفسیات نگاری کی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔انیس فاروقی بیانہ انداز میں مکالموں کی مناسب توازن کے ساتھ افسانے پیش کرتے ہیں۔ ان کے افسانے سماجی اصلاح کے آلہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے افسانوی ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ انیس فاروقی کے فن پر مشاہیر ادب نے اپنی گراں قدر آرا کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر اشرف رفیع انیس فاروقی کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
 ”انیس فاروقی کے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بہت مختصر ہوتے ہیں لیکن ان میں محبت‘عداوت‘حسرت و عبرت‘تعجب و حیرانی‘تاسف و پشیمانی‘آرزﺅں اور خواہشات کی دنیا آباد ہے۔انیس فاروقی اپنی مٹی کی خوشبو کے رسیا ہیں۔اس مٹی کی سماجی بصیرت‘عمیق مشاہدے اور عصری مسائل سے آگہی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے افسانوں کے موضوعات منتخب کیے ہیں۔وہ کوئی ہائی فائی دنیا کی بات نہیں کرتے۔کسی تحریک سے متاثر نہیں۔کسی کے قلم کی اتباع نہیں کرتے ۔کسی سانچے میںاپنے قلم کو بند نہیں کرتے۔ان کے افسانے متوسط اور غریب طبقے کے ترجمان ہیں۔وہ غریب طبقہ جس کے پاس نہ کوئی تکلف ہے نہ تصنع۔بے ریا زندگی ہے۔انیس فاروقی کے افسانوں آدرش وادی‘کس چڑیا کا نام ہے اورمحنت کی روٹی وغیرہ میںآج کی سیاست پر گہرا طنز ہے۔ان کے ہاں دل کی وادی میں‘اداس لمحوں کا کرب‘وجود زن سے ہے‘احساس کی کرچیاں اور خاموشیاں جیسے افسانے بھی ہیں جن میں محبت کی نرمی و گرمی‘کامیابی ناکامی‘طرب و اضطراب سبھی کچھ ہے۔سیدھا سادا حسن‘ہلکا پھلکا رومان‘وفا اور جفا کے مختلف روپ سے بھی ان کے افسانے خالی نہیں۔زندگی میں یہی کچھ تو ہوتا ہے۔بعض افسانے دل کو چھو لیتے ہیں۔دل کو چھو لینے والی اسی کیفیت میں تو فنکار کی کامیابی کا راز چھپا ہوتا ہے۔
 ( پروفیسر اشرف رفیع۔پیش لفظ ۔دل کی وادی میں ۔ص۔12)
 حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اردو کے ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ پروفیسر بیگ احساس نے بھی انیس فاروقی کی افسانہ نگاری کو خوبیوں کا اعتراف کیا ہے اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
 ” انیس فاروقی ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔چالیس سال کا ادبی سفر کچھ کم طویل نہیںہے۔ان کی تحریر میں اب پختگی آگئی ہے۔ وہ دل کو چھو لینے والے افسانے تخلیق کرنے لگے ہیں۔بعض افسانے تو اپنے کلائمکس میں پلکیں بھی بھگو دیتے ہیں۔ یہ ان کی تحریر کے موثر ہونے کا ثبوت ہے۔وہ اپنے افسانوں کے ذریعے صالح اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی ادب کا بنیادی مقصد ہے۔ ادب کے اس دور انحطاط میں یہی کارنامہ کیا کم ہے کہ انیس فاروقی اپنے افسانوں کے ذریعہ مرجھاتے ہوئے گلستان کو سرسبز و شاداب کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں۔ بگڑتے جارہے معاشرے کے سدھار کی کوشش اپنی تحریروں کے ذریعہ سے ‘ اس سعی بے لوث کو بھی اگر جہاد کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔!“
 (پروفیسربیگ احساس ۔پیش گفتار” گماں سے آگے“حیدرآباد۔ 2006۔ص۔12) 
 انیس فاروقی کے افسانوں پر حیدرآباد کے نامور مشاہیر ادب کی آراءسے اندازہ ہوتا ہے کہ سرزمین نظام آباد کے افسانوی افق سے ابھرنے والے اس ستارے نے اردو افسانے کی دنیا میںکس طرح اپنی سماجی تحریروں سے نام روشن کیا۔ عمر نے ان کے ساتھ یاوری نہیں کی۔ برین ٹیومر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے۔ تین چار ماہ علیل رہے اور 23ستمبر 2019کو اس دار فانی سے کوچ کیا۔ ان کے افسانے دکن کی سماجی زندگی کے آئینہ دار ہیں ۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے مسائل حل کرنے ٹوٹے رشتوں کو جوڑنے اور عارضی زندگی میں محبت کو عام کرنے کو جو پیغام دیا ہے وہ امید ہے کہ ضرور انسانیت کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔

*****
مضمون نگار: ڈاکٹر محمد ابرارالباقی،   اسسٹنٹ پروفیسراردو، شاتا واہانا یونیورسٹی، کریم نگر

No comments:

Post a Comment