نظام آباد کے تاریخی مقامات: ڈاکٹرعبدالقدیرمقدر - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

30.11.19

نظام آباد کے تاریخی مقامات: ڈاکٹرعبدالقدیرمقدر


ضلع نظام آباد کے تاریخی مقامات


 ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر


 شہر نظام آباد کو اندور یا اندراپوری بھی کہا جاتاہے ۔ یہ شہر ریاست آندھرا پردیش کا ایک ضلع میونسپل کارپوریشن ہے جسکی کُل آبادی 10لاکھ سے زیادہ ہے ۔ اور ریاست کے دس گنجان آبادی والے شہروں میں شمار کیا جاتاہے۔ ضلع کے 36منڈلس ہیں اور وہ ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد سے 171کلومیٹر شمال میں واقع ہے ۔

 آٹھویں صدی عیسوی میں نظام آباد پر سلطنت راشٹر اکتا کے بادشاہ اندرا ولبھ پنتھیا نے حکومت کی تھی۔ 1905ءمیں سکندرآباد اور منماڑ کے درمیان براہ نظام آباد ریلوے لائن بچھائی گئی اور اسٹیشن کا نام نظام سرکار نظام الملک کے نام پر نظام آباد رکھا گیا۔ 1923ءمیں دریائے مانجرا پر اچم پیٹ کے مقام پر نظام ساگر ڈیم بنایا گیا جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے ۔ ضلع نظام آباد کے کئی اہم ٹاﺅنس اور منڈلس ہیںجیسے بودھن، آرمور، کاماریڈی، بانسواڑہ، بھیمگل اور یلاریڈی وغیرہ ہیں۔ 

 بودھن :

 بودھن کے علاقے شکر نگر میں ایشیاءکی مشہور نظام شوگر فیاکٹری قائم ہے ۔ 1915ءمیں غلام یزدانی ناظم محکمہ آثار قدیمہ نے بودھن کی دیول نما مسجد سے ایک ستون برآمد کیا۔ جس پر کنڑی اور فارسی تحریر کندہ تھی۔ جسے محکمہ معتمدی امور عامہ سرکار عالی کو ترجمہ کے لئے بھیجا گیا تھا جس سے پتہ چلا کہ راشٹر کوٹ کے ایک راجہ اندر ولبھیا تنیا اندر سوم نے بودھنیا بودھن کو شائد اپنی راجدھانی بنایا تھا اسی لئے گمان غالب ہے کہ نظام آباد کا نام اندور اسی مناسبت سے رکھا گیا۔1304ءمیں سلطان علاءالدین خلجی نے اپنے سپہ سالار ملک کافور کو راجدھانی ورنگل کی فتوحات کے لئے بھیجا تو یہ اندور کو بھی تاراج کرتا ہوا لوٹا۔ اس کے بعد سلطان محمد تغلق نے ملک فخرالدین کی قیادت میں دکن کی مہم سر کی تو موضع اندور اور قندھار اس کے زیر اثر آگئے۔تیرھویں صدی کے وسط تک دکن کا سارا علاقہ بہمنی حدود میں داخل ہوگیا تھا۔ اور موضع اندور ضلع بیدر کے تحت آگیا تھا۔گولکنڈہ میں قطب شاہی دور زرین دور کہلاتا ہے۔ علم و ہنر فنون لطیفہ کا فروغ ‘بزرگان دین علماءاور فضلا کا جمگھٹا‘گویا گولکنڈہ ایک پرکشش علاقہ بن گیا۔ عالیشان عمارتیں‘مساجد و مقبرے وغیرہ یہ پرشکوہ یادگاریں آج بھی سیاحتی مراکز بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ضلع نظام آباد کے تاریخی علاقوں میں بھی تاریخی عمارتیں صحیح و سالم ہیں۔

 سولہویں صدی عیسوی میں مغلوں کے دکن پر حملے سے بہمنی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ اور موضع اندور بھی مغلیہ سلطنت کے زیر اثر آگیا۔ محمد کاظم کو علاقے کا فوجدار مقرر کیا گیا۔ اس طرح موضع اندور 1628ءتا 1707ءفوجداری عمل کے تحت رہا۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب جب دکن فتح کرنے کے لئے نکلا تو مرہٹواڑے کی سرحد عبور کرتا ہوا بودھن‘موضع اندور ‘بالکنڈہ اور بھیمگل کے راستے سے گولکنڈہ کا رخ کیا۔ضلع نظام آباد دراصل شمالی ہند سے دکن یعنی گولکنڈہ تک پہونچنے کے راستے میں واقع ہے۔ اور گولکنڈہ پر حملے کی صورت میں دشمن کی فوجوں کو اسی راستے سے گذرنا پڑتا تھا۔ حضرت بندہ نواز گیسو دراز ؒ جب حیدرآباد آئے تو اسی راستے سے ان کا گذر ہوا تھا۔ اور حضرت بابا نتھر شاہ ابدال ؒ واقع بابا پور نے بھی کچھ دنوں قیام کیا تھا۔ اور نگ زیب کی آمد دکن کا بھی راستہ یہی تھا۔ اور وہ براہ بودھن نظام آباد گولکنڈہ پہونچا تھا۔ بودھن میں شہنشاہ کی شب بسری کی کہاوت زبان زد خاص و عام ہے۔ کہ اس شب شہنشاہ کی نماز فجر قضا ہوگئی تھی۔ تب شہنشاہ نے اس سرزمین سے متعلق کہا تھا کہ ” بودن جائے بودنیست“ یہاں ایک چھوٹی سی مسجد اس دور کیا یاد گار ہے۔ اسی طرح بالکنڈہ اور بھیمگل میں بھی ہے۔ دکن کی فتح کے بعد 1707ءمیں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی۔ اور دکن میں 1724ءتا 1947ءآصف جاہی سلطنت قائم ہوئی۔اور کل سات حکمرانوں نے آصف جاہی سلطنت کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ چلایا۔اور اپنے دور حکومت میں کئی یادگاریں قائم کیں۔ نظام آباد میں بھی کئی تاریخی مقامات اور قلعے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔

 قلعہ نظام آباد:

نظام آباد میں جانب مغرب ایک بلند پہاڑ پر جس کی بلندی سطح زمین سے تقریباً تین سو فٹ ہے پر ایک پختہ خوبصورت قلعہ واقع ہے سابقہ محققین اور تاریخ دانوں نے اس کی تعمیر اور تعمیر کنندہ سے متعلق اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ تاریخ نظام آباد کے مولف محترم غلام احمد نائطی وکیل اس قلعے کی تعمیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” اس قلعے کی کوئی مستند تاریخ اس وقت تک ہاتھ نہیں آئی ہے چونکہ اس قلعہ کی جانب جنوب ایک وسیع تالاب رگھوناتھ تالاب کے نام سے موسوم ہے اس لئے اکثر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس تالاب اور عمارت کا بانی رگھوناتھ داس تھا۔“راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق اس تاریخی قلعہ کی تعمیر رگھوناتھ داس نے ہی کی۔ جو آصف جاہ سوم نواب صلابت جنگ بہادر 1750ءکی فوج میں رہنما تھے۔ صلابت جنگ بہادر کی جانشینی آصف جاہی سلطنت کے لئے سود مند ثابت نہ ہوئی اور امراءنے انہیں معزول کرکے نواب میر نظام علی خاں بہادر کو جانشیں بنایا۔ ان کے دور میں ارسطو جاہ نہایت ذہین وزیر تھے۔ 1795ءمیں مرہٹوں سے جنگ میں آصف جاہی فوج کو شکست ہوئی تھی۔ اور ارسطو جاہ قید کر لئے گئے تھے ۔ بعد میں صلح ہوگئی۔اور ارسطو جاہ رہا ہوگئے۔ ارسطو جاہ نے رہائی کے بعد سرحدوں کو مستحکم بنانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ نظام آباد میں بھی رگھوناتھ داس کے ذریعے قلعے کی تعمیر کروائی گئی۔ اس سے متصل ایک تالاب بنایا گیا۔ دہری فصیل والا یہ قلعہ در اصل ایک فوجی چھاﺅنی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی قیدیوں کو رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ قلعے کے اندر ایک ہال میں بڑی بڑی چکیاں ہیں جو دراصل قیدیوں کو آٹا پیسنے لگانے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ قلعے کا باب الداخلہ بڑی بڑی چٹانوں سے بنایا گیا ہے۔ سنتری کے لئے ایک چوکی بنی ہوئی ہے۔ باب الداخلہ سے گذرنے کے بعد کوئی دیڑھ دو فرلانگ پر ایک اور فصیل اور دروازہ ہے۔ اندر داخل ہونے کے ہونے کے لئے دشوار گذار راستے سے گذرنا پڑتا ہے۔ یہ قلعہ مرہٹوں اور انگریزی افواج کی نقل و حرکت سے باخبر رہنے اور مدافعت کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعے میں مندر اور مسجد ہے۔ 1915ءمیں مسٹر ہن کرن صدر ناظم محکمہ محابس نے جیل تک پہونچنے کے لئے سیڑھیاں بنوائی۔ قلعہ عرصہ دراز تک قیدیوں کے لئے جیل بنا رہا۔ اب جیل کے لئے علٰحیدہ عمارت تعمیر ہوگئی ہے۔ ایک عرصے تک قلعے کے احاطے میں گورنمنٹ گری راج کالج قائم تھا۔ جو اب اپنی ذاتی عمارت محلہ دوبہ میں قائم ہے۔ قلعے سے جانب مشرق ایک طویل سڑک جو محلہ پھولانگ کو جاتی ہے درمیان میں سنگ بستہ کمانیں بنائی گئی تھیں۔ سڑک کی کشادگی کے لئے ان پختہ کمانوں کو منہدم کردیا گیا۔ ایک کمان گڑھی کی کمان کے نام سے آج بھی موجود ہے۔

 قلعہ کولاس: 

کولاس موضع ضلع نظام آباد سے جانب جنوب 36میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا پہاڑی سلسلہ بالا گھاٹ سے ملتا ہے۔ یہاں جمشید قطب شاہ کے عہد میں 1494ءمیں قلعہ تعمیر ہوا۔ یہ قلعہ نہایت قدیم اور پر شکوہ عمارت کا حامل ہے۔ 1666ءمیں یہ قلعہ سید محمد طاہر کے تحت تھا۔ اس کے تحت سالانہ چھ لاکھ پچپن ہزار سات سو روپئے محاصل تھا۔ اس قلعے کے تحت پرگنہ روڈلور‘پرگنہ گندھاری‘پرگنہ ساتولی‘پرگنہ نارائن کھیڑ تھے۔1709ءمیں یہ قلعہ سلطنت آصفیہ میں شامل ہوگیا۔ اور 1736ءمیں نواب بصالت جنگ کے تحت تھا۔ جو اس وقت دیوان مقرر تھے۔ 1756ءمیں اس قلعہ کو راجہ پدم سنگھ کو ان کے باپ امی چند کی وفاداری اور خدمات کے صلہ میں عطا کیا گیا۔ عہد نواب میر محبوب علی خان میں یہ قلعہ راجہ درجن سنگھ کی وراثت میں تھا۔ راجہ کے انتقال کے بعد رانی سون کنور بائی اس کی وارث ہوئیں۔ 1913ءمیں نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے سمستھان میں شریک کر لیا گیا۔

 قلعہ دومکنڈہ:

 1784ءمیں دومکنڈہ سمستھان قائم ہوا۔ سرکار کولاس کے تحت پرگنہ درکی تھا۔ راجہ رگھویندر راﺅ اور راجہ اماپت راﺅ اس کے دعویدار تھے۔ پانچ سال کے لئے انہیں عطا کیا گیا۔ تب درکی اور بانسواڑہ علٰحیدہ علٰحیدہ مواضعات قرار دئے گئے۔ اسے 1863ءکو شریک خالصہ کیا گیا۔ اور 1933ءکو بانسواڑھ تعلقہ قرار دیا گیا۔ قلعہ بالکنڈہ: بالکنڈہ کو دکن کا باب الداخلہ کہا جاتا ہے۔ جو ناگپور سڑک پر واقع ہے۔ مسلمانوں نے جب دکن کو اپنا وطن بنایا تو بالکنڈہ ہی گولکنڈہ تک پہونچنے کا راستہ تھا۔ یہاں کے لوگ بڑے جری اور بہادر مانے جاتے ہیں۔ شیخ نظام منور جو بیجاپور کا متوطن تھافن سپہ گری کا ماہر تھاعادل شاہ کے دربار تک رسائی حاصل کی خان زماں خاں اور بہادر فتح جنگ کے خطابات سے نوازاگیا اسے بالکنڈہ پرگنہ عطا کیا گیا۔شیخ کے انتقال کے بعد 1696ءمیں مغرب خاں کو جاگیر و تمغہ بالکنڈہ عطا کیا گیا۔ شہزادہ اعظم جاہ کے ساتھ مقابلے میں امین خان کے تمام لڑکے کام آئے چنانچہ شاہ عالم نے امین خاں کو طلب فرما کر ان کی یہ موروثی جاگیر بحال کردی اور 1706ءکو نرمل کے تحت بالکنڈہ بھی عطا کیا گیا۔ قلعہ بالکنڈہ کے کھنڈرات اپنی عظمت و جلال کے مظہر ہیں۔

 قلعہ نرمل: 

موضع نرمل(جواب ریاست تلنگانہ کا ضلع ہوچکا ہے) کو دراصل ایک لمبا نائر نامی کولی نے آباد کیا تھا جو ایک متمول سپاہی تھا۔ یہ مقام 1317ءکے لگ بھگ آباد ہوا۔ 1716ءمیں امین خان کے تصرف میں لایا گیا۔ اور قلعہ کی تعمیر کی۔1776ءمیں آصف جاہی فوج نے قلعہ فتح کیا۔ اور قلعہ نرمل امام علی خاں برہان الدولہ بہادر کے حوالے کیا گیا۔ بعد میں یہ قلعہ راجہ شنکر راﺅ‘محمد علی خاں لوہان‘مرزا ابراہیم بیگ مبارز الملک ظفر الدولہ کے زیر اثر آگیا۔ پہلی ضلع بندی کے موقع پر یہ علاقہ خالصہ کرکے ضلع اندور کے تحت کردیا گیا تھا۔ دوسری ضلع بندی کے موقع پر نرمل ضلع عادل آباد کے تحت کردیا گیا۔ آصف جاہی دور کو ضلع نظام آباد کے لئے سنہری دور کہا جاتا ہے۔

محبوب گنج(کلاک ٹاور):

 اہل نظام آباد اپنی رعایا پرور حکمران نواب میر محبوب علی خان بہادر اور نواب میر عثمان علی خان بہادر کی رعایا پروری کو فراموش نہیں کرسکتے۔ اس دور میں ہندو مسلم ایک دوسرے کے لئے ایک جان دو قالب کی طرح رہا کرتے تھے۔ اور خود نواب میر عثمان علی خان بہادر ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کرتے تھے۔ نظام آباد کی گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا ثبوت یہ تھا کہ رانی چہلم جانکی بائی سرنا پلی نے بارہ ہزار روپئے کے صرفے سے 1904ءمیں کلاک ٹاور کی تعمیر اور اس گنج کو محبوب گنج سے موسوم کیا تھا۔ جو بعد میں گاندھی گنج اور کشن گنج کے نام سے جانا گیا۔

کتب خانہ عثمانیہ:

 اسی طرح 1908ءمیں پہلا کتب خانہ احمد اللہ خاں صاحب منصور نے قائم کیا۔ 1934ءمیں کتب خانہ عثمانیہ کے نام سے مجلس لوکل فنڈ سے زائد ایک ہزار گز معہ پلاٹ کی منظوری سے سید دلدار حسین ایکزیکٹیو انجنئیر کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس کتاب خانہ کو آج پاپوجی واچنالیہ کہا جاتا ہے۔

سرکاری/یونانی دواخانہ:

 1970ءمیں سرکاری دواخانہ کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر قمر الدین صاحب اس کے پہلے سرجن مقرر ہوئے۔ ویلسن مشن عیسائی تنظیم نے 1916ءمیں جذامیوں کا دواخانہ ڈچپلی میں قائم کیا۔جو ملک بھر میں اپنی نوعیت کا واحد د اور منفرد واخانہ ہے۔ 1836ءمیں دواخانہ یونانی مسجد عروب سے متصل قدیم عمارت میں آج قائم ہے۔ یہاں حکیم برہان الدین صاحب پہلے یونانی حکیم مقرر ہوئے۔ آج یہ دواخانہ زبوں حالی اور عدم توجہہ کا شکار ہے۔

محبوب باغ(تلک گارڈن):

 عوام کی تفریح گاہ کے لئے باغ عامہ 1902ءمیں محبوب باغ کے نام سے بنایا گیا۔جو آج تلک گارڈن کہلاتا ہے۔ اس کے درمیان ٹاﺅن ہال ہے جس کا سنگ بنیاد مرزا محمد بیگ صاحب اول تعلقدار کے ہاتھوں 1903ءمیں رکھا گیا۔ ایک سال میںاس کی تعمیر مکمل ہوگئی ۔ اس کی تعمیر میں مستاجر آبکاری دین شاہ جی نے فراغ دلانہ عطیہ دیا ۔ اور پرنس آف برار نواب مکرم جاہ بہادر کے ہاتھوں 1904ءمیں عمل میں آیا۔ 

برقی اسٹیشن ( پاور ہاﺅز):

 1904ءمیں ہی اسی سال شہر نظام آباد کے لئے برقی اسٹیشن ( پاور ہاﺅز) کا افتتاح بھی پرنس آف برار کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 

علی ساگر:

1932ءمیں علی ساگر کا سنگ بنیاد سید دلدار حسین اکزیکٹیو انجینئر کے ہاتھوں رکھا گیا۔ یہ تفریح گاہ علی نواز جنگ انجنئیر نظام ساگر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ نواب مکرم جاہ بہادر شہزادی در شہوار کے ہمراہ رونق افروز ہوئے اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ شہر نظام آباد کی موجودہ تہذیب و تمدن اور معاشرت کے نظام کوجو برسہا برس کے تدریجی ارتقاءکا نتیجہ ہے سمجھنے کے لئے اسلاف کی لکھی تاریخ کا مطالعہ جو حقائق و صداقت پر مبنی ہے سمجھنے اور آگے ترقی کی راہوں کو متعین کرنے میں معاون ہوگی۔

2 comments:

  1. Very informative article. This will help the young generations to know their history and will motivate & inspire them. Jazak Allah.

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ محترم...
    جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete