بچھڑتے وقت دلاسہ مجھے وہ کیا دیتا
وہ جانتا تھا کہ زندہ نہیں رہوں گا میں
یہ رنگ منچ کے کردار کتنے چھوٹے ہیں
چلے گا یوں ہی تماشہ، نہیں رہوں گا میں
جنوں پسند طبیعت جو پائی ہئے تو پھر
یہ طے شدہ ہے کہ صحرا نورد ہونا ہے
ابھی کہاں ہے کوئی برگ و بار کا موسم
ابھی تو شاخ کے پتوں کو زرد ہونا ہئے
جو تیری راہ میں نکلے تو پھر انا کیسی
یہاں تو خود کو مٹانا ہے گرد ہونا ہے
زندگی جیسے سرابوں کا سفر ہو گویا
ہم جو دوڑے تو پیاس فقط پیاس ملی
کچھ بھی تو اب نہیں میسر میرے لیے
الفاظ کی قبا ہے نہ چادر میرے لیے
تعظیم کے لئے میرا جھکنا برا ہوا
ہر شخص ہوگیا ہے قدآور میرے لیے
عجیب بات ہے خالی گلاس رکھتا ہے
وہ ایک شخص جو صدیوں کی پیاس رکھتا ہے
ملو گے اس سے تو چاہوگے روز ملنے کو
وہ اپنے لہجہ میں اتنی مٹھاس رکھتا ہے
No comments:
Post a Comment