قدیردانشؔ: شاعروادیب - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

25.9.20

قدیردانشؔ: شاعروادیب

قدیر دانش :شاعر وادیب 


 قدیر دانش نظام آباد کے ابھرتے شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔2015ءمیں ان کا پہلا شعری مجموعہ”قدم قدم دانش“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ حال ہی میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ”دل ہے کھلی کتاب“ اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوا ہے۔قدیر دانش کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں نظام آباد کے ادبی ماحول اور خاص طور سے نامور شاعر ‘صحافی و ادیب جمیل نظام آبادی کا اہم کردار رہا ہے۔ قدیر دانش نے اپنے شعری مجموعے میں اعتراف کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ اعظم روڈ پر جس زمانے میں اردو اکیڈیمی کا کتب خانہ ہوا کرتا تھا وہ کتابوں کے مطالعے کے لیے وہاں جاتے اور جمیل صاحب سے ملاقات بھی کرتے۔ جمیل صاحب کو دیکھ کر ہی ان میں شعر کہنے کا جذبہ پیدا ہوا اور کچھ اشعار لکھ کر ان سے اصلاح لی اور بہت جلد وہ شعر کہنے لگے۔ جس طرح شاعر اپنے سماج کا عکاس ہوتا ہے اسی طرح ایک افسانہ نگار بھی اپنے سماج اور اپنے عہد سے کہانیوں کو حاصل کرتا ہے اور اسے افسانے کے فن میں ڈھال کرپیش کرتا ہے۔ قدیر دانش نے اپنی شاعری میں جب اس طرح کے اشعار کہے ہیں کہ
 بجلیاں گر رہی ہیں نفرت کی
 جھگڑے ہم میں لگا گیا کوئی
 وقت کا یہ عجیب منظر ہے
 ہاتھ میں بھائیوں کے خنجر ہے
 تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے غزل کے دو مصرعوں کے ذریعے جو بات پوشیدہ انداز میں کہی تھی اسے کھول کر نثر میں پیش کیا تو وہ افسانے ہوگئے۔قدیر دانش کی شاعری اور افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تخلیقات اپنے عہد کی آواز ہیں۔ایک عام آدمی اور ایک تخلیق کار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عام آدمی کسی کہانی سے گذر جاتا ہے۔ لیکن ایک تخلیق کار اس کہانی کو محسوس کرتا ہے اور اسے لفظوں کا لباس پہنا کر خوبصورت تخلیق کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ قدیر دانش کے افسانے ہندوستانی سماج کے آئینہ دار ہیں اور ان افسانوں میں متوسط طبقے کے ہندوستانیوں کی زندگی کے مختلف رنگ و روپ پیش کیے گئے ہیں۔ عشق اور اس میں ناکامی‘ شادی بیاہ“زندگی کے مسائل‘جہیزکی لعنت‘شراب نوشی‘دولت کی فراوانی کے سبب پیدا ہونے والی سماجی برائیاں‘رشتوں کی شکست و ریخت ‘خوشی اور غم سب کچھ ان افسانوں میں موجود ہے۔ 
افسانوی مجموعہ” دل ہے کھلی کتاب“ میں شامل پہلے افسانے کا عنوان” پھول کی دانش مندی“ ہے۔ اس افسانے میں محبت میں ناکامی کے بعد دو کرداروں ثریا اور فتح کی دوریاں دکھائی گئی ہیں۔ اور پھر ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ دونوں کا دیار غیر میں انتقال ہوتا ہے اور دونوں پاس پاس دفن ہوتے ہیں۔افسانہ نگار نے اپنی فن کاری ظاہر کرتے ہوئے دونوں کی محبت کو اس انداز میں پیش کیا کہ ایک کی قبر کا پھول ہوا کہ جھونکے سے دوسری قبر پر جاگرتا ہے۔ اور اس طرح پھول دونوں کی محبت کے لافانی جذبے کی تصدیق کرتا ہے۔ افسانہ” نقلی اصلی سونا“ میں ہمارے سماج کے رستے ناسور جہیز کو موضوع بنایا گیا۔ جب کہ رضیہ کے سسرال والے اس سے شادی کے بعد دو تولے سونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ رضیہ اپنے والد مرزا صاحب سے سسرال والوں کے مطالبے کو ظاہر کرتی ہے۔ مرزا صاحب بیٹی کی زندگی بچانے کے لیے وظیفہ کے بعد ملازمت کرتے ہیں اور ادھار رقم لے کر دو تولے کا انتظام کرتے ہیں۔ لیکن کہانی کا انجام دلچسپ ہے کہ رضیہ کے گھر سے کوئی دو تولے کی انگوٹھی چرالیتا ہے۔ پولیس تحقیقات شروع کردیتی ہے۔ جب رضیہ کے والددو تولے پیش کرتے ہیں تو سسرال والے رضیہ اور ان کے والد پر چوری کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن پولیس گھر آکررضیہ کی نند کے شوہر حنیف کو پکڑ کرلے جاتی ہے کہ وہ چور ہے۔ تب رضیہ کے سسرال والے معافی مانگتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے اصلی سونے یعنی رضیہ کو پہچاننے میں غلطی کی تھی۔ اس طرح قدیر دانش کا یہ افسانہ سماج میں تعمیر ی کردار ادا کرتا ہے۔افسانہ ” نئی زندگی کی راہ‘ ‘ بھی ایک کرداری افسانہ ہے جس میں سیما نامی لڑکی کی دل میں سوراخ کی بیماری پر اس کے شوہر کی جانب سے بے اعتنائی کو ظاہر کیا گیا۔ لیکن جب علاج سے سیما اچھی ہوجاتی ہے تو اس کے شوہر کو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔افسانہ ” انتخاب“ بھی متوسط طبقے کے سماجی مسائل سے ابھرتی کہانی کو پیش کرتا ہے جب کہ لا وارث ادیبہ کی زندگی میں اچانک اس کی نانی آتی ہے اور اسے اس کے ماضی کے احوال سناتی ہے کہ کس طرح اس کی ماں اسے چھوڑ گئی تھی۔ لیکن اب اس کی نانی اور اس کے ماموں اسے واپس لینے آتے ہیں اور ایک ماموں اپنے بیٹے کی شادی کی پیشکش ادیبہ سے کرتے ہیں جو منظور کر لی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک تعمیری افسانہ ہے۔قدیر دانش کے افسانوی مجموعے میں ایک دلچسپ افسانہ” چہرے پہ چہرہ“ ہے جس میں ریکھا اور ارجن کی محبت کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ریکھا کا والد مکھیا کا قرض چکانے کی خاطر ریکھا کی مرضی کے خلاف مکھیا سے اس کی شادی کرادیتا ہے۔ جو چار بچوں کو باپ اور شرابی تھا۔ ریکھا ارجن کو پانے کے لیے اسے مکھیا سے دوستی کرنے اور شراب پلانے کا کہتی ہے ۔مکھیا شراب کے نشے میں رہتا ہے اور ریکھا اور ارجن رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ ایک رات مکھیا دونوں کو دیکھ لیتا ہے اور ارجن کو ماردینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جنگلی علاقے میں مکھیا کا قتل ایک تیسرا شخص کردیتا ہے۔ عدالتی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مکھیا کو ریکھا کے والد نے ماردیا تھا۔ بعد میں ریکھا اور ارجن کی شادی ہوجاتی ہے۔ اس افسانے میں قدیر دانشن نے تجسس برقرار رکھا اور کہانی کو کئی دلچسپ موڑ دئیے۔افسانہ ” بے رحم دنیا“ میں بھی دو پیار کرنے والوں شکیل اور نکہت کے بچھڑ جانے اور ایک وقت میں مرجانے کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
افسانوی مجموعے میں شامل دیگر افسانوں کے عنوات گونگی‘رحمت باراں‘نئی زندگی کی راہ‘خون کی قیمت‘دوسری ماں‘واپسی‘محبت کا تحفہ‘راہ ہموار‘منزل‘بے رحم دنیا‘ہائے رے دل اور وفا کا پتلا ہیں۔
قدیر دانش کو افسانہ نگاری کے فن پر عبور ہے۔ ان کے افسانے فنی محاسن پر پورے اترتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا پلاٹ گتھا ہوا ہوتا ہے کہانی میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ افسانے کا ایک اہم عنصر تجسس اور کشمکش ہے۔ قدیر دانش کے افسانے درمیان میں مکالموں یا کسی منظر سے شروع ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے کرداروں کی گفتگو سے کہانی اور کردار اپنا تعارف خود کراتے ہیں۔ کہانی کا انجام بھی تجسس آمیز ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ان کے افسانے ہندوستان کے متوسط طبقہ کے ہندو مسلم گھرانوںسے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کردار نوجوان اور شہری زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چند ایک افسانوں میں انہوں نے پریم چند کی طرح دیہاتی زندگی کو پیش کیا ہے اور مکھیا وغیرہ کرداروں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اپنے افسانوں کا آغاز ہی دلچسپی کے عنصر سے شروع کیا۔ افسانہ” پھول کی دانشمندی“ کا آغاز ملاحظہ کیجیے:
” جب ہوا کے ایک تیز جھکڑ سے میرے سامنے والی قبر کا ایک پھول حرکت میں آکر دوسری قبر پر جا پڑا تو میرے بدن میں جھر جھری دوڑ گئی۔ ایک نا قابل بیان سی کیفیت مجھ میں پیدا ہوگئی اور میری آنکھوں کے سامنے ستر سال کا ماضی آکھڑا ہوا“۔
قدیر دانش نے اپنے افسانوں میں کرداروں کی گفتگو کے ذریعے بھی کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔ افسانہ” نقلی اصلی سونا“ میں باپ بیٹی کے مکالمے دیکھئے:
” ہلو۔ باباجی“
 ” ہاں بیٹی“۔۔۔ بولو
 ” باباجی میں بہت پریشان ہوں۔ میری ساس اور نند دو تولے سونے کے لیے مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ باباجی آپ سن رہے ہیں نا“۔
 ” ہاں بیٹی“۔ میں سن رہا ہوں“۔
 پھر آپ کچھ کرتے کیوں نہیں۔
ہاں بیٹی میں تیری فکر میں ہوں۔ انشا اللہ کسی سے رقم ادھار لے کر تمہارا سونا ادا کردوں گا۔“
 مرزا صاحب نے اپنی بیٹی کو تسلی دے دی۔
 قدیر دانش نے کہانی کے بیانیہ کے لیے خطوط کی تکنیک بھی استعمال کی ہے۔ افسانہ گونگی میں شمع اپنے محبوب کو خط لکھ کر اپنے احوال بیان کرتی ہے دیگر افسانوں میں بھی خط کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔بعض افسانوں میں قدیر دانش نے اپنے مفہوم کی ادائیگی کے لیے اردو کے مقبول اشعار استعمال کیے۔اپنے افسانوں میں دلچسپی کا رنگ بھرنے کے لیے انہوں نے واقعہ نگاری اور منظر نگاری بھی خوب کی ہے۔ افسانہ ” واپسی“ کے آغاز میں منظر نگاری ملاحظہ ہو۔ ” اونچی اونچی پہاڑیوں اور خوبصورت جنگل کا منظر بڑا ہی دلکش لگ رہا تھا۔ اچانک ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور اسرار کو چونکا دیا۔ اسرار اپنے گھر کی چھت پر ٹہر کا جنگل کے خوبصورت پھولوں کے باغ کا نظارہ کر رہا تھا اچانک ایک لڑکی نظر آئی جو پھول چن رہی تھی“۔
 قدیر دانش کو زبان و بیان پر بھی خاصا عبور ہے۔ سادہ اور سلیس انداز میں انہوں نے اپنے افسانوں کو پیش کیا ہے۔ ان کے کردار نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہونے کے باجود زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اور اکثر فطری زندگی کے خواہش مند ہوا کرتے ہیں۔ ان کے کردار اکثر محبت کے پاکیزہ جذبوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر قدیر دانش کے افسانے دلچسپ ہیں اور اپنے عہد اور معاشرے کی کہانی بیان کرتے ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ ادبی رسائل اور اخبارات کے ذریعے اپنے افسانوں کو عام کریں۔ اردو کے ابھرتے افسانہ نگاروں کا تعارف بھی ان دنوں مشکل امر ہے۔ اردو کے معیاری افسانوی رسائل کی عدم موجودگی‘ الیکٹرانک میڈیا کی بڑھتی مقبولیت کے سبب لوگوں میں مطالعے کے ذوق کی کمی کی وجہہ سے اچھے افسانہ نگاروں کی قدردانی نہیں ہورہی ہے۔ ایسے میں تلنگانہ اردو اکیڈیمی قابل مبارک باد ہے کہ وہ فروغ اردو کے لیے اردو کے ادیبوں اور قلمکاروں کی تخلیقات کو زیور طباعت سے آراستہ ہونے کے لیے مالی تعاون کر رہی ہے۔
  جس سے ابھرتے قلم کاروں کی تخلیقات سامنے آرہی ہیں جو خود فروغ اردو کی طرف ایک خوش آئیند قدم ہے ۔قدیر دانش کے اس افسانوی مجموعے کی ادبی حلقوں میں ضرور پذیرائی ہوگی ۔ اور امید ہے کہ نظام آباد کی اردو دنیا سے ابھرنے والے ےہ افسانہ نگار اردو افسانے کے افق پر ایک روشن ستارہ بن کر ابھریں گے۔
 
***
مضمون نگار: ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی، صدر شعبہ اردو این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر

No comments:

Post a Comment