حضرت مولانا سیّد ولی اللہ قاسمی ؒ : بچھڑا کچھ اِس اَدا سے کہ رُت ہی بدل گئی - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

27.8.20

حضرت مولانا سیّد ولی اللہ قاسمی ؒ : بچھڑا کچھ اِس اَدا سے کہ رُت ہی بدل گئی

حضرت مولانا سیّد ولی اللہ قاسمی ؒ 


 بچھڑا کچھ اِس اَدا سے کہ رُت ہی بدل گئی 
 ایک شخص سارے ضلع کو ویران کر گیا

 ۲۵،ذیقعدہ ۱۴۴۱ھ،م 17،جولائی 2020ء کو جمعہ کے دن عشاء کے بعد 9،بجے،سرکاری دواخانہ نظام آباد سے حیدرآباد کے لئے لےجانے کی تیاری کے دوران حضرت مولانا( رحمۃ اللہ علیہ) نے (60)سال کی عمر میں ہم سب کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا، آکسیجن کی ضرورت پڑنے پر جمعرات کے روز صبح، حضرت کو اُن کے متعلقین اور ڈاکٹروں کے مشورہ سے سرکاری دواخانے میں شریک کیا گیا تھا۔ دو دن کی مختصر علالت کے بعد جمعہ کی شام میں حضرت کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
 رات میں ہی 12،بجے سے پہلے مدرسہ مظہر العلوم میں افضل بھائی ایم بی میکانک کی نگرانی میں غسل اور تجہیز و تکفین کا عمل مکمل ہوا، نمازِجنازہ حضرت کے عَزیز اور زندگی بھر کے مُخلص ساتھی حضرت مولانا حافظ آصف صاحب نے پڑھائی۔ حضرت کے بھتیجے مولوی حافظ سید سمیع اللہ صاحب نے دُعا فرمائی۔ 
 لاک ڈاؤن کی وجہ سے نمازِ جنازہ میں شرکت کی اپیل نہیں کی گئی تھی۔ لیکن صرف ڈھائی گھنٹے میں مولانا کے دو ہزار کے قریب چاہنے والے نمازِجنازہ میں شریک ہوگئے۔ اگر لاک ڈاؤن نہیں رہتا اور اگلے روز ہفتہ کے دن ظہر میں نماز جنازہ ہوتی تو نظام آباد کی سڑکیں جام ہوجاتی۔ کیونکہ نام بھی حضرت کا "وَلِیُ اللہ " تھا۔اور حقیقت میں بھی وہ "اللہ کے ولی" تھے۔ اس محبوب ہستی کی نماز جنازہ میں نظام آباد ضلع کے ہر تعلقہ،ہر منڈل،اور ہر گاؤں سے لوگ اُمڈ کر آتےتھے۔ حضرت مولانا ؒ کی نظام آباد کے قدیم قبرستان، (بودھن روڈ پر) اپنے والد محترم، اور اپنے استاد محترم مولانا عطاء الرحمن جامی قاسمی ؒ کے پاس ہمیشہ کی "آرام گاہ" بنی ہے۔ حضرت مولانا ؒ کے والدِ محترم حضرت مولانا سید عیسیٰ صاحبؒ میرٹھی، یوپی سے عثمان بادشاہ کے زمانے میں اسکول کے ٹیچر کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔اور یہاں نظام آباد میں اہلِ حق علماء میں سے شمار ہوتے تھے۔ حضرت کے خسرِ محترم قاری محمد میاں دھلوی ؒ تھے۔ 
  حضرت مولاناؒ کی1960ءمیں نظام آباد میں ہی پیدائش ہوئی۔ دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد اور مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی یوپی میں ابتدائی تعلیم ہوئی۔ (1975ء)میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا۔ حضرت مولانا ؒ چالیس سال پہلے(1980ء) میں دارالعوام دیوبند سے فارغ ہو کر پہلے ایک سال آمبور(چینائی) میں شعبۂ عالمیت پڑھائے۔ پھر حضرت مولانا ضمیرالدین صاحب ؒ کے انتقال کے بعد ایک سال جامع مسجد نظام آباد میں امامت کے فرائض انجام دئے۔ حضرت اپنی طبیعت ناساز ہونے کی بنا پر حضرت مولانا عطاء الرحمن جامی قاسمی ؒ کو جامع مسجد کی امامت حوالے کرکے خود مدرسہ مدینۃ العلوم نظام آباد میں دس سال تک بطورِ معلم خدمات انجام دیں۔ یہی زمانہ مدرسہ مدینۃ العلوم کا عروج کا زمانہ رہا ہے۔ (1983ء)تا سئینتیس (37)سال تک مسلسل مکّہ مسجد نظام آباد میں امامت و خطابت کے مَنصب پر وہ فائز رہے۔ جبکہ امامت کی ابتدا میں یہ مسجد چھوٹی کویلو کی تھی۔اور آج اس مسجد کا شمار شہر کی دوسری بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔ جمعہ میں اور بڑی راتوں میں یہ مسجد مولانا کا بیان سننے کےلئے مصلیوں سے بھر جاتی تھی۔ یہاں سے مولاناؒ حق بات کا اظہار اور شرک و بدعت کے خلاف جاندار تقریریں کرتے رہے۔ اور لوگوں کو شریعت و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی پُر زور تلقین کرتے رہے۔۔ اسی مسجد میں چار مرتبہ تفسیرِ قرآن کا درس مکمل کئے۔ حضرت مولانا عطاء الرحمن جامی قاسمی ؒ کے(2005)میں انتقال کے بعد سے پندرہ سال تک وہی جمعیۃ علماء ضلع نظام آباد تلنگانہ کے متفقہ طور پر صدر تھے۔ حضرت مولانا کی حیات میں نظام آباد کے "بودھن بس اسٹانڈ" پر جمعیۃ علماء ضلع نظام اباد کے دفتر کی شاندار بلڈنگ تعمیر ہوئی۔ شاید ہی کسی ضلع میں اس طرح کی جمعیۃ علماء کی ذاتی عمارت ہو۔ جمعیۃ کے کام حضرت الحاج حافظ پیر شبیراحمد ، صدر جمعیت علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش کے مشورہ سے کرتے تھے۔ 
  ضلع کی بڑی دینی تنظیمیں مسلم پرسنل لاء کمیٹی، حج کمیٹی، اور شرعی پنچایت کمیٹی کے بھی حضرت مولانا ؒ پندرہ سال صدر رہے۔ دعوت و تبلیغ کے اجتماع میں پابندی سے شرکت کرتے تھے، چالیس دن جماعت میں وقت بھی لگائے تھے۔ ہر ضلعی جوڑ میں اکثر مولانا کی بات ہوتی تھی۔ ذکر و سلوک کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے ،ایک روزہ جلسہ میں کسی نہ کسی وقت مولانا کا بیان ضرور ہوتا تھا۔ حضرت مولانا لئیق احمد قاسمی صاحب، امام جامع مسجد شکرنگر کے ساتھ، مولانا خود اپنے اصلاحی تعلق کےلئے پابندی سے ہمیشہ حضرت مولانا سعید احمد صاحب دامت برکاتھم "پر نام بٹ" کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ حضرت مولانا نے تیس(30)سال پہلے (1991ء)،میں حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ کی اجازت سے، حضرت مولانا عبد العزیز صاحب ؒ رکنِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی سرپرستی میں، حضرت مولانا عبدالقوی صاحب اور حضرت مفتی غیاث الدین رحمانی صاحب حیدرآباد کی ہمت افزائی پر "مدرسہ مظہر العلوم" کو قائم فرمایا، مدرسے کے ابتدائی چھ(6)مہینے تک حضرت مولانا اور آپ کی اہلیہ محترمہ نے بچوں کو کھانا بنا کر کھلایا۔اس کے بعد باورچی کا انتظام ہوا۔شروع ہی سے یہ مدرسہ پورے ضلع نظام آباد کے لئے ایک مثالی و معیاری ادارہ ثابت ہوا، اس سے پہلے لوگ مدرسوں کو "یتیم خانے" سمجھتے تھے۔بچوں کا کام کلر کے کپڑوں میں قرآن خوانی، آیتِ کریمہ اور دعوتوں میں جانے کا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مدرسہ مظہر العلوم کے قیام سے لوگوں کو پتہ چلا کہ مدرسہ کس قدر عظیم الشان مقصد کا حامل ہوتا ہے۔اور اس میں پڑھنے والے مہمانانِ رسول کیسے فرشتے معلوم ہوتے ہیں۔ مدرسہ مظہر العلوم میں ڈیڑھ سو سے زیادہ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ جبکہ اس سے اب تک تین سو کے قریب جیّد حُفّاظِ کِرام فارغ ہوئے۔ ان میں سے کئ باصلاحیت علماء و مفتی بھی بنے۔ مظہر العلوم کے طلبہ کا حِفظِ قرآن بہت پُختہ ہوتا ہے۔اور تجوید و قرآت بھی بہت عُمدہ ہوتی ہے۔ وضع قطع اور اخلاق و کردار بھی بھت اچھے ہوتے ہیں۔ مدرسہ مظہر العلوم کے اکثر فارغین، ضلع نظام آباد میں اور اطراف و اکناف کی ریاستوں میں، مساجد اور مدارس میں بہترین دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت شہرِ نظام آباد کے اکثر علماء و حفاظ بھی مولانا کے شاگرد ہیں۔ چالیس سال کے اس پورے عرصے میں حضرت مولانا ؒ کے پاس کچھ نہ کچھ پڑھنے والے طلبہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔مولانا کو "نَسَبِی اولاد" نہیں تھی لیکن مولانا کے یہ ہزاروں شاگرد روحانی اولاد بن کر قیامت تک مولانا کے لئے دنیا میں نیک نامی کا ذریعہ اور آخرت میں صدقۂ جاریہ ثابت ہوں گے۔
  حضرت مولانا تقویٰ و طہارت کے پابند انسان تھے۔ شریعت و سنت کا اھتمام مولانا کی زندگی کا سب سے نمایاں وصف رہا۔۔ بےانتہاء سادگی اور غیر معمولی بے نیازی کے ساتھ حضرت کی زندگی گزری۔ زمانۂ دراز سے طبیعت کی ناسازی کا شکار رہے لیکن زندگی بھر دین کی خدمت میں لگے رہے۔ گویا انھوں نے اپنی ساری زندگی حق کی سربلندی کے لئے خرچ کردی۔ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ رہتی،اسی کیفیت میں وہ ہروقت دین کی بات بتادیتے تھے۔ اللہ تعالی نے حضرت کو بہت نورانی چہرہ عطا فرمایا تھا،حضرت کو دیکھتے ہی اللہ والوں کی یاد تازہ ہوتی تھی، سب سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ مولانا بہترین مقرر تھے۔ آواز میں خاص کشش تھی، دل میں درد تھا، تقریر میں وقت کے لحاظ سے قیمتی باتیں بہت کم وقت میں اچھے انداز میں بیان کرتے تھے۔نظام آباد کا بڑے سے بڑا جلسہ مولانا کی صدارت میں ہوتا تھا،کم از کم کوئی بڑا جلسہ مولانا کے بیان کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ مولانا کا کہیں مسجد یا مدرسے کی سنگِ بنیاد کا جلسہ تو اور کہیں مسجد یا مدرسے کی افتتاح کا جلسہ ہوتا۔ دینی مدارس کے سالانہ جلسوں میں تو مولانا کی بہت اہم تقریر ہوتی تھی۔ نکاح کے موقع پر اصلاحِ معاشرہ کی تقریر بھی لوگ بہت غور سے سنتے تھے اور عمل بھی کرتے تھے۔ ہزاروں جگہ مولانا کے بیانات ہوئے، اور ہزاروں لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ جلسہ میں مولانا کا نام سن کر لوگ جمع ہوجاتے تھے۔جو ایک مرتبہ مولانا کا بیان سنتا،وہ ہمیشہ کےلئے مولانا کا بیان سننے کا خواہش مند ہوجاتاتھا۔
  ناچیز؛ مولاناؒ کا شاگرد تو نہیں ہے لیکن مولانا کا خادم اور عاشق ضرور ہے۔ پچیس سال پہلے سے زمانۂ طالب علمی میں ساتھیوں کے ذریعے مولانا کا ذکرِخیر کانوں میں پڑتا رہتا۔بیس سال پہلے رمضان المبارک میں جلسۂ شبِ قدر میں اتفاق سے حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو درخواست کی کہ دارالعلوم دیوبند میں میرے داخلے کے لئے دعا فرمائیں، حضرت نے فورًا فرمایا: تمہارا داخلہ تو ہوگیا ہے، خوشی سے جائیے، وہ دن اور آج کا دن ہے،مولانا کی محبت سے دل بھرا ہوا ہے۔فراغت کے فوری بعد بودھن میں جب سے مسجد اور مدرسے کی ذمہ داری بندہ نے سنبھالی، اُس وقت سے آخر تک ہر ہفتہ پندرہ دن میں فون پہ بات یا ملاقات کی سعادت حاصل رہی، ہماری محبت سے کہیں زیادہ حضرت کی ہم پر شفقت رہی ہے۔ ہر معاملے میں حضرت سے مشورہ کی ہماری عادت بن گئی تھی۔ بیان میں حضرت نے فرمایا تھا کہ ہر علاقے کی ضرورت کے حساب سے اللہ وہاں کے علاقے میں علماء کو بھیجتا ہے۔، پندرہ دن پہلے آخری نصیحت حضرت نے ایک سفر میں مجھ کو فرمائی کہ ہر آدمی میں کچھ نہ کچھ اچھائی، اور کچھ نہ کچھ کمزوری رہتی ہے۔لھذا ہر آدمی کی اچھائی سے فائدہ اٹھانا چاہیئے اور کمزوری کو چھوڑ دینا چاہیے۔ ایک ہفتہ پہلے حضرت والا کی بودھن تشریف آوری پر "قافلۂ اھلِ دل " کتاب پیش کرنے پر بےانتہاء خوشی کا اظہار فرمایا۔ احقر کی حضرت سے بس یہ آخری ملاقات ثابت ہوئی۔
 قارئین سے پُر خلوص گزارش ہے کہ حضرت مولاناؒ کے قائم کردہ مدرسہ مظہر العلوم کی فکر فرمائیں اور خوب مدد فرمائیں۔مدرسے کی مزید تفصیلات کے لئے دس سال پہلے ابنائے قدیم مدرسہ مظہر العلوم کی طرف سے شائع شدہ "التذکرہ" نامی رسالہ ضرور پڑھیں، جو مدرسے کی بیس سالہ خدمات پر جامع تحریر ہے اور حضرت مولانا کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی حضرت کو خوب راحت نصیب فرمائے، ان کو دینی خدمات کا شایانِ شان بدلہ عطا فرمائے، جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، حضرت کے درجات کو بہت بلند فرمائے۔حضرت کے مکان کو جنت کا باغ بنائے۔آمین ثم آمین
 ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
 بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

***
مضمون نگار: مولانا محمد عبد الحمید السائح قاسمی ناظم مدرسہ معاذ بن جبل بودھن،ضلع نظام آباد

No comments:

Post a Comment