عبداللہ ندیمؔ : نئی نسل کا نمائندہ شاعر - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

12.8.20

عبداللہ ندیمؔ : نئی نسل کا نمائندہ شاعر


عبداللہ ندیمؔ : نئی نسل کا نمائندہ شاعر


  نئی نسل کے نمائندہ شاعر محمد عبداللہ ندیم ؔکا تعلق تلنگانہ کے ادبی شہر نظام آبادسے ہے۔ عبداللہ ندیم ؔ1972ء کو مولوی محمد عبدالغفار صاحب کے گھر پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعدمیٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کی۔ عبداللہ ندیم ؔکا مزید تعلیمی سفر جاری رہتا مگرذریعے معاش کی خاطر انہوں نے تعلیم کو منقطع کرتے ہوئے خلیج ممالک کا رخ کیا۔اور تین سال تک خلیج میں مقیم رہے۔
 عبداللہ ندیمؔ کو بچپن سے ہی شعر و ادب سے لگاو رہا ہے۔ گھر کے قریب(محلہ حطائی)میں قائم مسلم ہاسٹل جہاں اکثر و بیشتر ادارہ ادب اسلامی کے مشاعرے ہوا کرتے تھے۔پابندی سے سننے کیلئے جایا کرتے تھے۔اور یہیں سےان میں ادبی ذوق پیدا ہوا۔ وہ پچھلے تیس سال سے شعر کہہ رہے ہیں وہ مزاجاَ بہت کم مشاعرں میں شرکت کرتے ہیں لیکن دیگر اَصناف سخن کے علاوہ غزل کی طرف مائل ہیں۔ان کا کلام ہندوپاک کے معیاری رسائل وجرائدمیں شائع ہوتا ہے۔ جن میں ماہنامہ”تیر نیم کش“، ”بادبا ن“کراچی،شب خون،سب رس،شاعر، گونج وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 
 ان کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فطرتَاشاعر ہیں ان کی شاعری میں میرؔ،غالبؔ، اور اقبالؔ کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ان کی اکثر غزلیں،غزل کے حقیقی معنی کی تفہیم کرتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ چند نظموں اور ترانوں میں اسلامی مزاج بھی نمایاں طو رپایاجاتا ہے۔ حمد کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں؎ 
اے خدا شکر ادا کرنے کو الفاظ کہاں
 تری تعریف بیاں کرنے سے قاصر ہے زباں 
 اس گنہگار و سیاہ کا کی تقدیر بنی
 روح سرشار ہوئی سن کے ترے گھر کی اذاں
 وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظمیں،بلخصوص ترانے بہت ہی عمدہ لکھتے ہیں،مجھے اچھی طرح یاد ہے جماعت اسلامی ہند کی کانفرنس 2004ء کے ضمن میں یہ طرح مصرعہ دیا گیا تھا”حساب کا وقت آگیا ہے جاگو“ میرے اصرار پرٖ انہوں نے ایک ترانہ لکھ تھا۔جس کو بہت پسند کیا گیا اسی ترانہ کا بند ملاحظہ فرمائیں؎ 
 وقت ِحساب ہے یہ محسوس کرکے دیکھو
 مقصد کو زندگی کے مقصو د کرکے دیکھو
 آواز دے رہے ہیں حالات زندگی کے جنجھوڑ نے لگے ہیں 
سائے ستمگری کے ”حساب کا وقت آگیا ہے جاگو“ 

 اس کے علاوہ ایس آئی او سے نسبت رکھنے والے نوجوانوں نے جب کبھی بھی کسی موضوع پرکانفرنس منعقد ہوتی رہی ہے۔ ان سے ترانہ لکھنے کی خواہش کرتے رہے ہیں اس سلسلہ میں 2007ء میں ایس آئی او کے 25سالہ قیام کی تکمیل کے پروگرام کے ضمن میں عبداللہ ندیمؔ کا ترانہ ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور نوجوانوں کی زبان پر گنگنانے لگا۔ ؎ 
 عزیزو بتاؤ کدھر جارہے ہو
 ہے منزل ادھر
 تم کدھر جارہے ہو 
 بظاہر چلے تو ہو منزل کی جانب 
 مگر راستوں کا پتہ بھی ہے تم ک
و کسی رہبری کی ضرورت نہیں ہے 
 سمجھ دار ہو کر بھی کیا خود سری ہے 
 محمد عبداللہ ندیمؔ کا تعلق شہر نظام آباد کے علمی و دینی گھرانے سے ہے۔اس لحاظ سے بھی وہ اصلاحی و تعمیر ادب کے ترجمان ہیں۔ وہ رشتہ میں میرے منجھلے بھائی ہوتے ہیں۔ عبداللہ ندیمؔ کا یہ پہلا شعری مجموعہ ”گوہر آب دار“ جس میں حمدیں،نعتیں اور غزلیں شامل ہے غزلوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہہ سے زیر طبع مجموعہ کلام میں ترانے اور نظمیں شامل نہیں کئے گئےہیں جو آئندہ شعری مجموعہ میں شامل کئے جائیں گے۔ میرے مسلسل اصرارکی بناپر شعری مجموعہ (گوہر آبدار)کی اشاعت عمل میں لائی گئی۔
عبداللہ ندیم ؔنے اپنی شاعری کی اصلاح کیلئے برصغیر کی بلند شخصیت،ممتاز افسانہ نگار،ناول نگار،شاعر جناب اقبال متینؔ کا انتخاب کیاتھا ۔اقبال متینؔ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں نظام آباد میں مقیم رہے وہ جب تک یہاں رہے عبداللہ ندیم ؔنے ان سے خوب استفادہ حاصل کیا۔اقبال متینؔ صاحب کی خواہش بھی تھی کے ان کے شاگرد کا کلام”شعری مجموعہ“ کی شکل میں ادبی دنیا میں پیش ہو۔ افسوس کہ موصوف کی خواہش ان کی حیات میں پوری نہ ہوسکی۔
 بہرحال 2015ء میں ”گوہر آب دار“کی شکل میں شائع ہوا۔جس میں ممتاز شعراء رحمن جامی،ڈاکٹر روف خیرؔ،جمیل ؔنظام آبادی اور راقم الحروف کے تاثرات بھی شامل ہیں۔اقبال متینؔ کے انتقال پر لکھے اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎ 
 اٹھا نہیں ہے کبھی درد اتنی شدت سے
 تمہارے غم کا نیا سلسلہ الگ کچھ ہے
 متینؔ دل پہ جو اک نقش ہے تعلق کا
 ہزار رشتوں سے شائد جدا الگ کچھ ہے
 عبداللہ ندیم ؔ نے نئی زمینوں میں غزلیں لکھی ہیں اور ان کا لہجہ بھی بہت خوب ہے دیکھیں ؎ 
 ہم سے مل کر ہمیں سناؤکچھ
   دل میں آؤ اسے جتاؤ کچھ
 صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوتا
 بات جب ہے کہہ کر دکھاؤ کچھ
 بہرحال عبداللہ ندیم کاؔ تخلیقی سفر ابھی جاری ہے امید کہ وہ اپنی تخلیقات سے قارئین کو محظوظ فرماتے رہیں گے۔


 ****
 مضمون نگار: ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل

1 comment: