آہ ……مولانا ولی اللہ قاسمی ؒ مرحوم: دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

18.7.20

آہ ……مولانا ولی اللہ قاسمی ؒ مرحوم: دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات


آہ مولانا ولی اللہ قاسمی ؒ مرحوم 
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات

 موت و حیات کے فیصلوں پر وہی ذات لم یزل ولا یزال حیٰ و قیوم کو اختیار حاصل ہے۔ جب موت کا وقت آجاتا ہے اس میں تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی لایستاخرونَ ساعتہً ولا یستقد مَوُن جب وہ گھڑی آجاتی ہے تو کوئی تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی۔ مولانا ولی اللہ قاسمی کا انتقال ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ 
 مولانا سید ولی اللہ قاسمی ؒ مرحوم سے میرا دیرینہ تعلق رہا ہے رفاقت کا یہ سلسلہ گذشتہ 5 سال سے کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا ہر صبح چہل قدمی میں ان کے ساتھ کئی موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی ایک متبحر عالم، تقویٰ تدبر فراست کا پیکر،علم بیکراں رکھنے والی شخصیت، صلاحیت اور صالحیت کا مرکب، ملی حمیت سے سرشار اصلاح اُمت کا نقیب اپنی ذات میں ایک انجمن اللہ رب العلمین کی صفات پر غیر معمولی ایقان رکھنے خوف و خشعیت الٰہی سے معمور دل نباض زمانہ، خطیب العصر، منبر و محراب کا وقار، عالم با عمل روشن ضمیر، خود دادری سنجیدگی و متنانت کا مجسم فرائض سنن و اجباب نوافل و اذکار جن کی رگ و جان میں سرایت کر گئی تھی جن کی گفتگو میں قوت جذب قلوب تھا جو کئی باتوں ہی باتوں میں دلوں کا اکتساب بھی تھا ایک بے مثال مقرر جو سامع کوگرویدہ بنادے الفاظ کی بندشیں قرآن و حدیث صحابہ اکرام اور اسلاف و تاریخ کے حوالے ہر شخص کے دل میں یہ اشتیاق کہ تقریر کی طوالت کچھ اور بڑھے اور معلومات میں اضافہ کا سبب بن جائے جن کا خطاب سن کر حیرت ہوتی تھی کہ اللہ نے علم و فضل و کمال اس شخص کیلئے لکھ دیا ہے الفاظ کاٹکسال ان کی آواز کا سوزدل کی اندر کی تڑپ سننے والوں کو تڑپاتی ہے۔ قرآن کے حیات بخش پیغام سے انہوں نے لوگوں کے قلوب کو گرمایا اور عمل کی تحریک پیدا کی۔تقریر ایک جادو جو سننے والے کو متاثر کرے بغیر نہیں رہتی۔ غالباً 18 سال قبل ایک دن ڈی سرینواس مولانا سے ملاقات کیلئے ان کے مدرسہ مظہر العلوم پہنچے مدرسہ کے احاطہ میں رسمی ملاقات کے بعد ان کے ہمرا ہ آئے ہوئے ایک مسلم قائد نے مولانا سے کہا کہ”آپ فارم بھر دیجئے“ یہ جملہ سنتے ہی مولانا کا چہرہ سرخ ہوگیا اور مولانا نے سخت لہجہ اور کرخت آواز میں کہا کہ آپ انہیں دیجئے جن کے پاس نہیں ہے آپ ہمیں لالچ نہ دیجئے۔ ڈی سرینواس بھی حیرت میں پڑ گئے اور اس مسلم قائد کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور کہا کہ یہ موقع نہیں ہے بات دراصل 75 گز اراضی آئمہ و موذنین کو سرکاری طور پردینے کی تھی جس پر مولانا نے اس رد عمل کا اظہار کیا تھا بعد میں ڈی سرینواس نے مجھ سے کہا کہ مولانا سخت آدمی ہے مولانا عطاء الرحمن صاحب کی طرح نہیں میرے دل نے اس واقعہ کا گہرا اثر قبول کیا تھا اور مولانا کی قدر و منزلت میری نگاہ میں بڑھ گئی۔ 
2007 ء میں جب میں اُردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کا رکن تھا اس وقت پہلی مرتبہ دینی مدارس کو کمپیوٹر دینے کی اسکیم کا آغاز کیا جارہا تھا ہر دینی مدرسہ کو 5 کمپیوٹر س دئیے جارہے تھے پہلے مرحلہ میں حیدرآباد کے 5 مدارس کا انتخاب کیا گیا اور ان مدارس کے ذمہ داروں کو اس اسکیم کے آغاز پر چیف منسٹر وائی ایس آر کے ہاتھوں کمپیوٹر دینے کی تقریب منعقد ہونی تھی میں نے اکیڈیمی کے اجلاس میں نظام آباد کے مدرسہ مظہر العلوم کو شامل کرایا تھا کہ حیدرآباد میں منعقدہ تقریب میں مولانا کو بھی مدعو کرتے ہوئے انہیں مدرسہ کیلئے یہ کمپیوٹرس دئیے جائیں بڑی خوشی و مسرت کے ساتھ جب اس بات کی اطلاع دینے کیلئے میں نے مولانا کو فون کیا تو مولانا کا رد عمل پر مجھے حیرت ہوئی مولانا نے کمپیوٹر لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے طئے کیا ہے کہ سرکاری اسکیم سے ہمارے مدرسہ کو مستفید نہیں کریں گے میں فون پر تاویلئں دے کر مولانا کو منوانے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن میں اپنی کوشش میں ناکام رہا دوسرے دن میں نے نظام آباد پہنچاتا کہ مولانا سے ملاقات کرکے انہیں اس تقریب میں چلنے کیلئے آمادہ کرسکوں مولانا نے کہا کہ ہمارے اکابرین کا حکم ہے کہ ہم سرکاری مراعات اور اسکیمات سے اپنے مدارس کو دور رکھیں مولانا نے کہا کہ اس مسئلہ پر انہوں نے مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم سے بات چیت کی اور وہ جملہ مولانا نے دہرایا جو مولانا ارشد مدنی صاحب نے فرمایا تھا کہ ہمارے مدارس توکل اور اخلاص پر چلتے ہیں جس دن سرکاری اسکیمات سے استفادہ کا ذہن پیدا ہوگا جس راستے سے یہ اسکیمات ان مدارس اور اداروں میں داخل ہوں گی دوسرے ہی راستہ سے توکل و اخلاص نکل جائے گا۔ اس جملہ کو سننے کے بعد میں لب کشائی کی جسارت نہ کرسکا۔ آہ یہ کیسے لوگ ہیں آج بھی دین کا کام کرنے کیلئے ان کے پاس محدود وسائل اور توکل و اخلاص کی بیساکھیاں ہیں اور یہی ان کے مضبوط سہارے ہے کتنے ہی واقعات علم میں آتے ہیں مدارس کے سلسلہ میں لیکن مولانا ولی اللہ قاسمی ؒ مرحوم مشکل حالات میں بھی اپنا مدرسہ کا توکل یقین وغناء کے بھروسے پر چلاتے تھے اللہ رب العلمین کی ذات عالی پر اس قدر گہرا یقین محکم کبھی کبھی مجھ سے کہتے کہ مدرسہ میں راشن ختم ہوگیا تھا صبح کیلئے کچھ نہیں تھا اللہ نے انتظام فرمادیا مدرسہ مظہر العلوم کا پودا لگا کر ایک پھل داردخت کی شکل میں اپنے خون جگر سے مولانا اور آصف صاحب نے اس کی آبیاری کی۔اور کتنی ہی کیاریاں اس گلشن مادر علمی کی پھیل کر بر گ و بار لارہی ہیں۔ اس مدرسہ کے فیضان سے ہمارا ضلع روشن ہوگیا اور اس کی تابنا کی منبر و محراب سے عیاں ہوتی ہے کتنے سنگریزوں کو تراش کر ان جوہریوں نے ہیرہ بنادیا کہ ان کے سینوں میں قرآن محفوظ ہوگیا علم و فضلیت کی سندیں ان کو حاصل ہو ئیں وہ ملت کا اثاثہ بن گئے ان میں اچھے مدرس معلم عالم حافظ و مفتیان معاشرے میں روشنی بکھیررہے ہیں مولانا نے اپنی ذات کیلئے کبھی کسی شخص یا ارباب مقتدر کے سامنے دست طلب نہیں رکھا وہ نہایت محتاط مسنکر المزاج تھے ہمیشہ ملت کے وسیع تر مفاد میں سوچا کرتے تھے۔ اپنے خیالات افکار ذاتی تجربات تاریخی واقعات اسلاف کے کارنامے ہمیشہ موضوع گفتگو رہا کرتے تھے گذشتہ چند سالوں کے دوران ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے میں وہ بہت زیادہ متفکر اور بے چین رہا کرتے تھے کہ یہ امت آزمائش و ابتلاء کے قابل نہیں ہے جو کر نباک واقعات مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے لنچنگ کے واقعات پر وہ بے چین رہا کرتے تھے دینی مدارس کا تحفظ دینی اداروں اور جماعتوں کی بقاء ہر مسلک جو جس سمت بھی دین کے مفاد میں خدمات انجام دے رہا ہوں اس کو وہ وقت کی ضرورت قرار دیتے تھے مجھ سے کہتے کہ کبھی ذہنی تحفظات بھی مختلف جماعتوں سے متعلق تھے لیکن اب حالات نے آشکار کیا ہے کہ ہر جماعت ہرمسلک دین کی ترویج و اشاعت کیلئے ان حالات میں ضروری ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک تحریر پڑھ کر سنائی تھی ایک متبحر عالم دین نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان حالات میں ضرورت ہے کہ امت کا ہر فرد ”رجوع الی اللہ دعوت الی اللہ“ کا نقیب بن جائے۔ مولانا نے جب یہ دو جملے سنے تو کہا کہ آج میرا جمعہ کا موضوع یہی ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ موجودہ حالات کا تقاضہ صرف یہی دو نکات ہے جس پر عامل ہوکر ہم حالات کے بھنور سے کل سکتے ہیں اور کشتی کو گرد آب سے نکال کر ساحل تک بحفاظت لے جاسکتے ہیں۔ 
 مولانا بے مثال خطیب تھے الفاظ کی روانی و سلاست انداز بیان قرآن و حدیث کے حوالے اکابرین کے کارنامے اسباب زوال امت اصلاح حال کیلئے درکار امور حالات کو بدلنے کا عزم اور تدبیر ماحول کی برائیوں کے سدباب کیلئے ان کی بے چینی اور کرب فکر و تربیت کے پہلو باطل قوتوں کو ریشہ دوانیوں اور منصوبہ بند حکمت عملی کے بالمقابل ہماری کیفیت قرآن و حدیث سے ہماری وابستگی کی ضرورت اہمیت و افادیت دینی علوم کا فروغ اور اس کا ماحول موجودہ حالات میں مایوسی کے برعکس اللہ کی ذات العالیٰ پر کامل یقین تزکیہ نفس، توبہ استغفار اپنے گھروں کو اسلامی ماحول میں ڈھالنے معاشرہ کے اسلامی خطوط پر ڈھالنے اکرام وتکریم مولانا کے خاص موضوعات رہا کرتے تھے ابھی وہ ماہ فروری میں جب یہاں CAA پر شاہین باغ طرز کادھرنا جاری تھا مولانا کا خطاب تھا مولانا کے آنے میں کچھ تاخیر تھی منتظمین نے میری تقریر رکھدی تھی میر ی تقریر کے بعد مولانا نے جو تقریر کی میں نے کہا کہ مولانا ہماری نظر جسم پر ابھر آنے والے پھوڑے اور پھنسیوں پر ہے آ پ کی نظر فاسد خون پر ہے مولانا نے کم وقت میں جو جوش وجذبہ وہاں وموجود افراد میں موجزن کردیا کہ ہر شخص عش عش کرنے لگا جرأت اور بے باکی کا مظہر ایک غیر معمولی تقریر مولانا کی رہی ایک ایسا جوش مولانا نے پیدا کیا کہ کب معرکہ حق و باطل ہوجائے اور ہم اپنی جان آفرین کے حوالے کردے ایک بہترین و اعظ بیاں ہماری تذکیر کرنے والی بہترین شخصیت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی اور مالک حقیقی سے جا ملی۔
 چند ماہ قبل مولانا نے ایک ہمہ مسلکی اجلاس کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا تھا شاید یہ 2001 ء کی بات ہے جب کوشش کرتے ہوئے شخصی طور میں نے ایک پہل کی تھی نظام آباد کے تمام مسالک کے ذمہ داروں کو کلاسک فنکشن ہال میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا تمام علماء جس میں مولانا عطاء الرحمن صاحب مرحوم، مولوی عبدالغفار صاحب مرحوم اوراہلحدیث، اہلسنت والجماعت اور تمام مسالک کے علماء اکرام شامل تھے ایک خصوصی اجلاس میں یہ گذارش کرنے کیلئے اختلافی مسائل کو عوامی موضوع نہ بنائے جائے بلکہ اعتدال اور ملت میں اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم کی جائے میں عبدالمقیت فاروقی اور میرے دوست نجیب خان کی اس پہل پر تمام ہی مسالک اور مکاتب کے علماء و ذمہ داروں نے اتفاق کیا تھا اور اتحاد بین المسالک کے سلسلہ میں کچھ تجاویز اور کچھ عمل بھی درآمد ہوا تھا لیکن یہ سلسلہ دراز نہیں ہوسکا اس اجلاس کے انعقاد کو تو میں بھول گیا تھا لیکن مولانا نے اچانک وہ یادیں تازہ کیں اور کہا کہ پھر حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم اس طرح کا اجلاس منعقد کریں میں نے وعدہ بھی کیا تھا کہ انشاء اللہ حالات ساز گار ہوں گے تو پھر ایک بار ضرور اس طرح کا اجلاس منعقد کروں گا۔ 
 مولانا کو میں نے کبھی مرعوب ہوتے نہیں دیکھا وہ ظاہری چمک دمک عہدہ ورتبہ پر مامور شخصیتوں سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچائے رکھتے تھے کیمروں کے سامنے اپنے منہ کو چھپا لیا کرتے تھے الایہ کہ کوئی ضرورت ہوجائے تشہیر سستی شہرت سے دور اپنی ذات تنازعات سے بچاکر رکھنا مولانا کا خاص و صف تھا۔ طبیعت میں نرمی، گفتگو میں شائستگی، چال و چلن میں اعتدال، نفاست و پاکیزگی کا خیال، عفو ودوگذر اپنے مخالف کو اپنا گرویدہ بنانے کا فن، ذکر نیم شبی، مراقبے اور صحبت علماء سے فیض حاصل کرنا نظام آباد کی فضاؤں کو ہمیشہ علمی ماحول سے معطر رکھنے کیلئے ملک بھر کے علماء اکرام کو بلاکر ان سے استفادہ کرانا مولانا کا وطیرہ و معمول تھا۔
  میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں مولانا کے بارے میں کیا کیا لکھوں بڑی اپنا ئیت سے وہ مجھ سے بہت سی باتیں کہہ جاتے جب کبھی کسی بیرونی عالم دین کو وہ نظا م آباد مدعو کرتے مجھ سے بالخصوص کھانے میں شریک رہنے کی خواہش کرتے ایک مقناطیسی شخصیت تھی وہ کہ کبار علماء بھی ان کی دعوت پر کھینچ کر چلے آتے تھے۔ وہ نظام آباد میں فلاحی سماجی ملی خدمات کے روح رواں تھے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا ہر تعمیری اور دینی کام کی پذیرائی کرتے تھے ابھی گذشتہ پیر کے دن ان کی ملاقات میرے بھائی سیدمجیب علی صاحب سے ہوئی تھی سید یعقوب علی میموریل حفظ قرآن اکیڈیمی کے تحت قرآن کے حفظ کے آن لائن پروگرام کو انہوں نے سراہتے ہوئے اس نئی جہت پر مبارکباد دی تھی۔ اور کہا تھا کہ آپ نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی تمام مدارس کو اقتداء کرنا چاہئے۔
 خشک ہوجاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں 
 دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات 
 تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
 سبز نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
 رب ذو الجلال کے حضور و عجز انکساری قلب کے ساتھ دعا گو ہوں کہ مولانا مرحوم کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ ان کی موت کو ان کیلئے تحفہ بنادے ان کی مرقد کو جنت کا باغ بنادے ان کی مغفرت اور ان کے درجات کو بلند فرمااور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ا ن کا نعم البدل اُمت کو عطا فرمائے۔ (آمین)

*****
مضمون نگار: سید نجیب علی، ایڈوکیٹ

No comments:

Post a Comment