الحاج مولوی محمدعبدالغفار ؒصاحب مرحوم: اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لیکر - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

2.4.20

الحاج مولوی محمدعبدالغفار ؒصاحب مرحوم: اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لیکر


الحاج مولوی محمدعبدالغفار ؒصاحب مرحوم: اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لیکر

 مولوی محمدعبدالغفاصاحب مرحوم وضع دار‘منکسرالمزاج‘متواضع‘ توحید کی علمبردار‘ایک داعی‘پرعزم بلند مقاصد کے حصول کے لئے اور اقامت دین کی سرگرمیوں میں پوری تن دہی کے ساتھ یقین محکم عمل پیہم کی حامل ہمہ پہلو شخصیت کی حیثیت سے دینی حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔ سن شعور کی ابتدا ء ہی سے شخصی طورپر مجھے انہیں دیکھنے کا موقع ملا اور تقریباً 20سال تک مجھے وقتاً فوقتاً ان کی صحبت علمی سے فیضاب ہونے کا بھی موقع ملا۔

 مجھے تحریک اسلامی سے اب بھی لگاؤ ہے اگرچیکہ میں تحریک سے فعال طورپر اجتماعی حیثیت سے جڑا ہوانہیں ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس اجتماعیت کے طفیل مجھے شعور حاصل ہوا ہے۔ اورانہی بزرگو ں کے علمی چشموں سے سیراب ہونے کابھی موقع ملا بلاشبہ جماعت اسلامی کے ہر اول دستہ کے اولین شخصیات جنہوں نے اپنے سرمایہ زندگی کواقامت دین کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے دوام زندگی کو اپنا منتہائے مقصود بنالیاتھا۔اسلامی سربلندی اور اس کی اشاعت وتروجیح کیلئے ان کی سرگرمیاں سعی وجہد تحریک اسلامی کے البم کے وہ انموٹ نقوش ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

 میرے والد مرحوم مولوی سید یعقوب علی صاحب جماعت اسلامی کے رکن تھے وہ 48برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے والد مرحوم بچپن میں ہم بھائیوں کو لیکر جماعت اسلامی کے منعقد ہونیوالے تربیتی اجتماعت میں شریک ہوتے تھے ان اجتماعات کی یادوں کے دھندلے نقوش اب بھی ذہنو ں میں ابھرتے ہیں آہ یہ کیسے لوگ تھے للہیت کے جذبہ سے سرشار ہر شخص اپنے کاز اور مقصد ونصب العین کیلئے مخلص متحرک ایک دوسرے کیلئے بھرپور رفیق کار جماعت کے ذمہ داران جب آتے اجتماعات منعقد ہوتے نظم وضبط مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ذمہ دار تحریک کے قائدین کے پرمغز بیداری قلب کا سامان کرنے اور عزائم کوسینوں میں رکھی چنگاریوں کوشعلہ جوالہ بنانے والے خطابات‘طاغوت باطل قوتوں سے لوہا لینے کیلئے آمادہ کرنے والے افکار سے پران کے خیالات ایک فرد کوانفرادی طورپر تیار کرنے اورایک معاشرے کی تشکیل کیلئے تیار ی کرنے اور ایک تشکیل ریاست کو نصوص قرآن وحدیث پرتعمیر کرنے کے خواب کی عملی تعبیر کو شرمندہ کرنے کی تڑپ اور اُس کیلئے حتی المقدور سعی وجہد پرآمادہ کرتے تھے۔
 مولوی عبدالغفارؒ صاحب مرحوم انہی بزرگ شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے تن من دھن کے ساتھ اپنے محدود وسائل کے باوجود پوری تن دہی ذمہ داری متانت وسنجیدگی کے ساتھ جماعت اسلامی کی مفوضہ ذمہ داریوں کوپورا کیا، اُن کی نگاہ بلند تھی وہ سخن دلنواز اور جان پرسوزشخصیت تھے۔جماعت اسلامی کے نصب العین اوراقامت دین کیلئے وہ انتہائی فعال ومتحرک انداز سے سرگرم عمل رہا کرتے تھے۔وہ کوئی عالم دین نہیں تھے۔انہوں نے کسی مدرسہ سے فراغت وسند حاصل نہیں تھی لیکن میں پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ عالم سے کم بھی نہیں تھے وہ اتنے تشنہ علم تھے کہ انہوں نے تفاسیر کی بڑی بڑی شرحیں پڑھ لی تھیں ابتداء ہی سے علم کا شوق تھا جزمعاش سے وابستگی کے ساتھ ساتھ علم کے حصول کے شوق نے انہیں ایک بوسیدہ مسجد سے وابستہ کردیاتھا۔مسجد عثمانیہ رضا بیگ جہاں انہوں نے اپنی نوکری کے دوران عارضی قیام گاہ بنالیاتھا۔اس مسجد سے ان کی وابستگی تادم حیات رہتی ہے پرانہیں ابتداء میں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے اوربعدازاں جب تحریک اسلامی سے واقف ہوئے تواس عظیم ہمہ گیر انقلاب کے داعی کی حیثیت سے اس سے چمٹتے رہے وہ مجھ سے کہتے کہ میں نے اس وقت جب کہ آمدنی محدود ہوا کرتی تھی۔اسلامی کتب خریدکریا پھرمستعار لیکر پڑھا۔نظام آباد میں واقع ایک قدیم کتب خانہ باپوجی واچنالیہ جہاں اب بھی علمی‘ادبی ودینی سرمایہ کو دیمک چاٹ رہی ہے۔مولوی عبدالغفار صاحب نے کہاکہ وہ پابندی سے وہاں جا تے اور مختلف موضوعات پر کتابوں کامطالعہ کرتے سوشلزم‘سیکولرزم‘کمیونزم کی خرابیوں اوران نظامو ں کوانسانیت کیلئے کارگرنہ ہونے اوراسلام کوایک نظام زندگی کے طورپرپیش کرنے کیلئے ان کے پاس دلائل تھے۔ کارل مارکس کے نظریات ڈارون کا انسانی تخلیقی طریقہ سے نشٹے کے افکار کے مقابلہ میں اسلام کے برعکس ہرنظریہ حیات پر کاری ضرب لگانے کیلئے وہ علمی طورپر اسلامی نظریہ حیات کو پیش کرتے۔ قرآن وحدیث فقہ اسلامی‘ تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔مطالعہ ان کی روح کی غذا تھی۔ قرآن کی تفاسیر جلالین و کمالین‘ ابن کثیر‘ تدبرالقرآن‘معارف القرآن‘ فی ضلال القرآن‘ تفہیم القرآن کی ضخیم جلدیں ان کے مطالعہ کا معمول اورا ن کے مطالعہ کی میز پرہمیشہ جمی رہتیں۔اقبالیات‘ مثنوی مولاناروم‘ سعدی کی حکایات‘ اکبرآلہ آبادی کے اشعار انہیں ازبر تھے اور برجستہ اس کے حوالے دیا کرتے تھے۔فن خطابات کے لئے پوری طرح تیاری کرتے۔ قرآن وحدیث‘تاریخی واقعات‘حقائق وحالات پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ درس قرآن میں بیٹھنے والا شخص تسلسل کے ساتھ ان کے درس کوسنتاتھا۔قرآن کی کسی آیت‘حدیث یا سیرت صلی اللہ علیہ وسلم‘ سیرت صحابہ کا کوئی بھی حوالہ میں ان سے پوچھتا تووہ آیت نمبر اورسورت کا حوالہ اگرحدیث ہو تو اس کی تفصیل اورسیرت کے کسی واقعہ کی حقیقت پر فوری وہ سیرت النبی کی جلدوں کے صفحات کے ساتھ حوالہ دیا کرتے تھے۔ معتبر اورمستند کتاب کامطالعہ ان کا معمول تھا۔ اپنے ذاتی خرچ سے انہوں نے کتابیں خریدی تھیں۔ وہ علامہ اقبالؔ کو اس دور کا معاصر شاعر اسلام کانقیب قراردیتے تھے۔ جنہوں نے اپنے اشعار کو خون جگر سے سینچ کر ملت کی آبیاری کا سامان فراہم کیا۔علامہ اقبالؔ سے انہیں گہری عقیدت تھی۔ابلیس کی مجلس شوریٰ کے علاوہ علامہ اقبالؔ کے تمام ادوار کے اشعار بشمول شکوہ جواب شکوہ انہیں ازبر تھے۔ وہ اکثر آئمہ مساجد کویہ شعر سناتے تھے:

 گرصاحبِ ہنگامہ نہ ہومنبر ومحراب
 دین بندہِ مومن کیلئے ہے موت یا خواب 
 وہ بڑے نباض تھے۔حالات پران کی گہری نظر تھی اکثر یہ شعرمجھ سے کہاکرتے تھے:
 میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
 میں روزوشب کا شمار کرتا ہوں تسبیح دانہ دانہ 
 علم کے اس قدر حریص تھے کہ میں جب کوئی نئی کتاب کا ذکر کرتا تو مجھ سے کتاب طلب کرتے اورمیں انہیں کتاب فراہم کرتاتھا۔ عمر کے تفاوت کے باوجود غیرمعمولی شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ گفتگو کے دوران انکساری سے ایسا محسوس ہوتاتھا۔ہم اپنائیت سے بات چیت کررہے ہیں۔اپنے دیرینہ تجربات‘ مشاہدات اور واقعات کا تذکرہ کرتے تھے،تنظیم، اجتماعیت‘ اسلامی عقائد وافکار‘دینی اشاعت اورحق کیلئے سعی جہد کرنے کے دوران آزمائش اور استقامت جیسے امور پر تفصیلی گفتگو کیا کرتے تھے وہ جماعت کے معاصراکابرین ہی کی نہیں بلکہ تمام ہی مسالک کے علماء کی کتب سے استفادہ کرتے تھے۔وہ تنگ ذہن اور تنگ نظر نہیں بلکہ وسیع النظرووسیع القلب تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بلالحاظ وابستگی مسلک ان کا احترام اور ان کی اجتماعی کوششوں کے سلسلہ میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔
 اپنی ذاتی زندگی میں وہ صبر وثبات کے پیکر تھے۔ مخالفین بھی سخت اختلاف کے باوجود خندہ پیشانی سے ملنے پر ان کے اخلاق سے متاثر ہوجاتے تھے۔ میں نے کبھی انہیں اختلافی مسائل پر مباحث کرتے نہیں دیکھا‘احسن انداز سے صحیح بات غلط عقائد کے بالمقابل وہ آسانی سے کہہ گزرتے کہ سامنے والے کو اختلافی مسئلہ پر لب کشائی کا موقع نہیں ملتا کم عمر ہم جیسے بچوں سے بھی نہایت شفقت اور انکساری سے ملتے۔ انتہائی منکسرالمزج شخصیت کے حامل مولوی محمدعبدالغفار صاحب مرحوم ایک باتقویٰ شخص تھے اگرچیکہ ان کی انفرادی عبادات کا وہ کبھی تذکرہ نہ کرتے لیکن میں نے ان کے ساتھ سفر کے دوران انہیں دیکھا کہ ان کے بیاگ میں قرآن مجید رہا کرتی تھی اور تہجد اور کوئی نماز ان کی قضاء نہ ہوتی جس مسجد کا موذن اس بات کی گواہی دے کہ فجر کی اذان سے پہلے سب سے پہلے کوئی شخصیت مسجد میں داخل ہوتی ہے وہ عبدالغفار صاحب مرحوم ہیں اس سے بڑی گواہی کیا ہوسکتی ہے۔ وہ روزانہ تہجد کے بعد اپنے گھر سے نکل کر قبرستان جاتے اور فجر کی نماز، درس قرآن کے بعد 7بجے تک قرآن وحدیث کامطالعہ کرتے اوراپنے کاروبار میں اور تحریکی کاموں میں مشغول ہوجاتے۔ایک مہذب قدآور وضع دار شخصیت جناب مولوی عبدالغفار صاحب مرحوم کا یہ انفرادی اور شخصی کردار تھا جس کا میں نے احاطہ کیا۔
 وہ ملت کے اجتماعی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔نظام آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاریخی جلسہ کے بعد تمام ہی جماعتو ں کے قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑرکھنے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے نظام آباد میں مسلم پرسنل لا کمیٹی کو تادم حیات قائم رکھا اور جب بھی ملی اجتماعی اُمور ومفادات ومعاملات کی بات آتی وہ اس کمیٹی کے ذریعہ اجتماعی طورپر سرگرمی کے ساتھ کام کیا کرتے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1986؁ء میں نان نفقہ کے مسئلہ پر شاہ بانو کیس میں عدلیہ کی مداخلت کے بعد مسلم پرسنل لا کمیٹی کے ذریعہ سے پورے ضلع بھر میں ایک اجتماعی مہم چلائی گئی جس میں بھی اگرچیکہ کم عمر تھا لیکن تمام ذمہ داروں کے ساتھ ضلع کے دوروں میں شامل تھا اور ایک زبردست ریالی جس کی نظام آباد کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی نکالی گئی تھی۔شریعت میں ارباب اقتدار یا عدلیہ کی مداخلت کا معاملہ ہویا بابری مسجد سانحہ شہادت سے قبل کے حالات کا جناب مولوی محمدعبدالغفار صاحب مرحوم نے اس پلیٹ فارم کو جوڑ رکھا‘اُنہی کی کوششوں سے پہلی مرتبہ نظام آباد میں شرعی پنچایت کا قیام عمل میں لایاگیاتھا۔ابتداء میں اس کا دفتر مسجد رضا بیگ میں تھا لیکن بعض معترضین نے اس دفتر کو بدل دیا لیکن مرحوم اتنے وسیع القلب ووسیع نظر تھے کہ اس مسئلہ پرانہوں نے کبھی بھی اعتراض نہیں کیا۔وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ شرعی پنچایت کے مسجد رضا بیگ میں قیام کے دوران مولانا عطا الرحمن صاحب‘ مولانا کریم الدین کمال‘ مولانا ولی اللہ صاحب‘ حافظ عرفان احمد صاحب اگر نمازوں کے اوقات میں موجود رہتے تو وہ امامت کیلئے انہیں مصّلے تک پہنچاتے اور ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے۔فروعی مسائل اور اختلافی امور میں وہ ہمیشہ معتدل رویہ اختیار کیا کرتے تھے اور اختلافی امور ومباحث کو ہمیشہ نظرانداز کردیا کرتے تھے کہیں کوئی فساد ہوتا تو وہ تمام ہی جماعتوں اور مکاتب فکر کے قائدین کے ساتھ پہنچ کر مسائل کو حل کیا کرتے تھے۔ اور ارباب مجاز سے نمائندگی کرتے تھے۔بابری مسجد سانحہ شہادت کا واقعہ اگرچیکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانو ں کے ذہنو ں سے اوجھل ہورہا ہے لیکن مرحوم ہر سال پوری تہذیب کے ساتھ ذمہ داران ملت کوجوڑ کر وہ نمائندگی کیا کرتے تھے۔ مرحوم کا یہ مثالی اجتماعی کردارتھا جو ہمیشہ ملت کے ذمہ دارو ں کو یاد رہے گا۔انہوں نے مجھ سے کہاکہ وہ ابتداء میں اہلحدیث سے بعد میں تبلیغی جماعت سے متاثر تھے اور وہ تبلیغی جماعت کے دورو ں میں بھی شریک تھے لیکن جماعت اسلامی سے وابستہ ہونے کے بعد وہ جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ اسلامی نظام کے قیام اس کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اپنے تن من دھن کی قربانی کا پیکر بن کر سرگرم عمل رہے۔ وہ قرآن کا یہ جملہ باربار دہرایا کرتے تھے کہ اَن الحکم الاللہ اَن الارض ا للہ۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے قیام ہی کو اپنی زندگی کا محور ومرکز بنالیناچاہئے۔ فردکا ارتقاء معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل یہ وہ خواب تھا جس کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کا خواب تحریک کے بانیو ں نے دیکھاتھا جس تحریک کا اساس کار قرآن وسنت او رایک اجتماعی نظام کے قیام کے لئے جدوجہد جس کا محور ومقصود اسی تصور کے ساتھ وہ آخری دم تک مصروف عمل تھے۔ جماعت اسلامی نے انہیں جتنی ذمہ داریاں تفویض کی وہ تمام ذمہ داریاں کو بحسن خوبی انجام دیتے۔وہ ناظم ضلع کے بعد ناظم علاقہ بنے‘میں دیکھتا کہ وہ اسکوٹر پر طویل سفر کرتے ہوئے تنظیمی اور عام اجتماعات منعقد کرتے اوراپنی ذمہ داری کو پورا کرتے۔انہیں اڈیشہ کا ناظم بنایاگیا وہ سنگلاخ علاقہ میں بھی کام کرتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑے۔
 اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے‘اقامت دین کے ایک داعی کی حیثیت سے ان کی انفرادی واجتماعی زندگی ایک مثال تھی۔ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے انہیں غیر مسلم مالکان رائس ملز عزت ووقار کی نظر سے دیکھتے اور ان کی رائس ملز میں آمد کو خیر وبرکت تصور کرتے چاول کی دکان کے مالک کی حیثیت سے انہو ں نے دیانت وامانت کی بناء پر ایک صادق تاجر کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت بنائی تھی وہ غیر مسلم احباب سے اپنی ملاقات کے دوران توحید‘ رسالت اورآخرت کے تصو رسے انہیں آگاہ ہی کرتے تھے۔ فرقہ پرست قائدین بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل امیٹی کے نام سے جماعت نے ایک فورم قائم کیاتھا انہون نے اس فورم کے مقاصد کے پیش نظر غیرمسلم قائدین کو اس کاز کیلئے جوڑا تھا تاکہ جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ملک میں برقرار رکھا جاسکے۔ایمرجنسی کے دوران میرے والد محترم مرحوم جناب سید یعقوب علی صاحب اور مولوی عبدالغفار صاحب 18 ماہ تک مشیر آباد جیل میں محرو س تھے۔اس دوران جیل میں بھی انہوں نے آر ایس ایس‘ کمیونسٹ قائدین سے مل کر انہیں دین اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ کی بھرپور جدوجہد کی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند سال قبل بنڈارو دتاتریہ(موجودہ وزیر) جب انتخابی مہم کے سلسلہ میں نظام آباد میں تھے نہرو پارک پرمولوی محمد عبدالغفار صاحب کودیکھ کر انہیں گلے لگالیا اور جیل کے ایام کے یادیں تازہ کیں۔ جماعت اسلامی سے وابستگی کے دوران جہاں انہیں جیل کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا وہیں مخالفین کے طعنے اور ان کے حملے بھی سہنے پڑے لیکن انہو ں نے مدافعت میں اپنا دیرینہ نظرانداز کرنے والا رویہ برقرار رکھا۔ آزمائشوں کے کئی مراحل سے وہ گذرے لیکن ان کے پائے ثبات کو میں نے کبھی لڑکھڑاتے نہیں دیکھا۔ اللہ بزرگ وبرتر پرانہیں گہرا یقین تھا مشکل حالات میں بھی وہ ہمیشہ ایک پہاڑ کی طرح کھڑے رہتے۔ بے باکی جراء ت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حق کے معاملہ میں رشتہ ناطہ اور دوستی کا لحاظ کئے بغیر وہ دو ٹوک اپنی بات کہہ جاتے۔انہوں نے کبھی ذاتی مفاد کواجتماعی مفاد پر ترجیح نہ دی تھی۔ جماعت اسلامی کے ایک پابند رکن کی حیثیت سے وہ جانے جاتے تھے۔
 مسجد عثمانیہ رضا بیگ ایک سفال پوش بوسیدہ عمارت پرمشتمل مسجد تھی اس مسجد کی تعمیر نو کیلئے انہو ں نے غیرمعمولی دلچسپی لیتے ہوئے دامے‘ درمے‘ سخنے تعاون حاصل کرتے ہوئے نظام آباد کی خوبصورت مسجد کی حیثیت سے اس مسجد کوتبدیل کردیا۔ وہ کہتے تھے کہ بڑی محنت وجستجو سے انہوں نے مسجد اور اس کے اطراف کی زمین حاصل کی۔ مسجد کے متولیو ں نے ان کی مسجد کیلئے دی جانے والی خدمات پر مسجد کے داہنی حصہ کو ان کی ذاتی رہائش کیلئے مختص کردیاتھا لیکن انہوں نے اس حصہ کو اپنی ذاتی رہائش کے سوائے جماعت اسلامی کے دفتر کے قیام کیلئے ترجیح دی۔ آج جہاں ابوللیث ہال اور جماعت کا مقامی دفتر واقع ہے۔60سال کے طویل عرصہ تک وہ بلامعاوضہ وکفاف مسجد میں امامت و خطابات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہیں مسجد سے بے حد لگاؤ اور محبت تھی۔60سال کی دیرینہ وابستگی کاعرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہے۔ علالت کے سبب وہ مسجد آنے سے قاصر تھے لیکن میں جب بھی ملاقات کیلئے جاتا تو مسجد کے چھوٹ جانے کا حزن وملال ان کے چہر ے پرپاتا۔ایک مرتبہ زاروقطار رونے لگے کہنے لگے کہ میری شدید خواہش کے باوجود میں مسجد نہیں آسکتا۔خودداری کا یہ عالم تھا کہ کثیر العیال محدود وسائل کے باوجود کبھی اپنی ضروریات کا احساس دوسرو ں کے روبرو نہیں کرتے اور اس طرح وضعداری کے ساتھ رہتے کہ انہیں دیکھنے والا انتہائی مالدار تصور کرتا۔ الحمد اللہ مجھے مولوی عبدالغفار صاحب کے ساتھ بیٹھنے‘ ان کے ساتھ سفر میں رہنے کا موقع حاصل رہا۔ بہت سے امور میں جس کااحاطہ کیا جاسکتا ہے لیکن طوالت سے بچتے ہوئے انہیں خراج پیش کرنے کیلئے میں نے چند کلمات جو ان کی انفرادی ذات‘اجتماعی شخصیت‘تحریکی زندگی‘امامت ومسجد سے وابستگی کے سلسلہ میں ہے رقم کیا ہوں۔ اللہ مرحوم کی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا کرے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔آمین

علامہ اقبال کا یہ اشعار ان پرصادق آتے ہیں :
 اُس کی امیدیں قلیل،اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز
 نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو 
رزم ہو یا بزم ہو،پاک دل وپاک باز


****
  مضمون نگار: سید نجیب علی، ایڈوکیٹ، نظام آباد

No comments:

Post a Comment