ممتازشاعر ڈاکٹر رضی شطاری سے ایک مکالمہ - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

23.4.20

ممتازشاعر ڈاکٹر رضی شطاری سے ایک مکالمہ


ممتازشاعر ڈاکٹر رضی شطاری سے ایک مکالمہ 

 1. پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہماری مصاحبت میں کچھ لمحے گذارنے کے لئیے آمادگی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر رضی شطاری صاحب۔ آپ اپنا خاندانی پس منظر بیان کریں؟

 جواب: السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوب ﷺ کا امتی بنایا اور محبوب ﷺ کے وسیلے سے بنی آدم پر علم و حکمت کے دروازے کھول دیئے محترم محبوب خان اصغر صاحب آپ کے ساتھ جتنا بھی وقت گزرتا ہے جو بھی گفتگو ہمارے مابین ہوئی اس سے طبیعت بہت محظوظ ہوتی ہے۔ آپ اردو ادب کے ایک نفیس محقق، مبصر، نقاد، نثر نگار اور شاعر ہیں آپ سے گفتگو کا موضوع اکثر شعری علمیت ہوتا ہے۔ آج اردو بہت ہی دقت کے دور سے گزر رہی، اس کے اپنوں نے ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ایسے ماحول میں آپ جیسے چند اردو کے شیدائی اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی ان ادبی خدمات پر آپ کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ آپ نے انٹرویو کے لئیے میرا انتخاب کیا اس پر آپ کا ممنون ہوں۔ آپ نے میرے خاندانی پس پس منظر کے تعلق سے سوال کیا ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ میرا نسبی سلسلہ یہ ہے کہ میں صوفیاء کے خانوادے میں پیدا ہوا۔ میرے پر دادا حضرت عبدالنبی شاہ صاحب ؒ موضع کامول، تعلقہ بھینسہ، ضلع نرمل تلنگانہ میں مدفون ہیں اور ایک صاحب عرس بزرگ ہیں۔ آپ کا تعلق سلطان الاولیاء حضرت غوث اعظم دستگیر ؒ کے سلسلے سے ہے۔ میرے دادا حضرت صوفی شاہ شیخ محبوب شطاری صاحب ؒ ہیں جن کا مزار احاطہ درگاہ صوفی نگر، نرمل میں ہے، آپ تارک الدنیا، متقی اور پرہیزگار صوفی تھے۔ والد گرامی حضرت صوفی شاہ غلام نبی نصرت ؔ شطاری صاحب ؒ ہیں درگاہ صوفی نگر نرمل ہی آپ کی آخری آرام گاہ ہے آپ درگاہ کے منتظم و خلیفہ رہے۔ والد بزرگوار اردو، انگریزی اور ریاضی کے استاد تھے والد صاحب اور میری والدہ محترمہ شمس النساء بیگم صاحبہ نے مل کر سن 1966ء میں شہر نظام آباد میں نیشنل ہائی اسکول (اردو میڈیم) کی بنیاد رکھی جو ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ آج 54 سال بعد بھی بھی چل رہا ہے۔ والدین درس و تدریس کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے اور میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لئیے مجھے والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقعہ ملا۔ والدین کی گود ہی میری پہلی درس گاہ رہی جس میں میں نے اردو زبان کا لہجہ، تلفظ، تہذیب اور اخلاقی قدریں سیکھی۔ والدہ اردو مضمون کی معلمہ تھی اور والد صاحب اردو کے معلم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے ماہر عروض استاد شاعر بھی تھے، روزمرہ زندگی میں مختلف موقعوں پر برجستہ موزوں اشعار کہا کرتے تھے۔ آپ کے شعر پڑھنے کا انداز ایسا تھا کہ ہر مصرع کے ہر رکن کو الگ الگ کرکے سمجھا جا سکتا تھا۔ یہیں سے مجھے لاشعوری میں علم العروض کی بنیادی باتیں (حالانکہ بعد میں اساتذہ کے پاس با ضابطہ طور پر علم العروض سیکھا) اشعار کی لطافت و معنویت سے واقفیت ہوئی۔ اس طرح بچپن ہے سے شاعری کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔

 2. اپنا تعلیمی پس منظر بتائیں؟
 جواب: میں نے اپنے ہی مدرسے نیشنل ہائی اسکول اردو میڈیم سے دسویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کی، انٹرمیڈیٹ کمپیوٹر سائنس سے کیا گریجویشن میں بی۔ ایس۔ سی۔ (Botany, Zoology, Chemistry) پوسٹ گریجویشن ایم۔ ایس۔ سی۔ (Biotechnology) اورنگ آباد سے کیا (اسی دوران سن 2004ء میں باضابطہ طور پر میری شاعری کا آغاز ہوا) حیدر آباد سے ایم۔ فِل۔ کیا جس کا موضوع کینسر کا علاج تھا اور حیدر آباد ہی سے پی۔ ایچ۔ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری حاصل کی جس کا موضوع برین ٹیومر کی تشخیص اور علاج Immunotherapy سے تھا۔

 3. سر دست ہماری معلومات کے لئیے اپنا ادبی پس منظر بھی بتائیں؟
 جواب: جیسے کہ میں نے بتایا، والدین کے زیر تربیت بچپن ہی سے شعر و ادب کا ذوق پیدا ہو گیا خانقاہ سے ہماری خاندانی وابستگی بھی ہے اور اسی سبب تقریباً 5-6 سال کی عمر سے مختلف دینی محافل میں نعت خوانی کرنے لگا، نعتیں پڑھتے پڑھتے شاعری میں تعریف، عقیدت مندی، تہذیب، لطافت اور جذبات کے بیان کا کچھ کچھ شعور جاگنے لگا۔ مختلف شعراء جیسے مولانا رومی، شیخ سعدی شیرازی، عبدالرحمن جامی، امیر خسرو ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، خواجہ میر درد، میر حسن دہلوی، نظیر اکبرآبادی، مرزا غالب، ذوق، میر تقی میر، بہادر شاہ ظفر، مومن خان مومن، علامہ اقبال، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، احمد فراز و دیگر شعرا کا سالہا سال مطالعہ کرتا رہا۔ استاد سخن، پیر و مرشد کریمی حضرت صوفی شاہ محمد خسرو احمد پاشاہ شطاری صاحب ؒ سجادہ نشین درگاہ صوفی نگر نرمل کی صحبت میں مسلسل کئی برس رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ پیر و مرشد کی صحبت کی برکت سے نعت گوئی کا شوق پیدا ہوا اور میں نے باضابطہ طور پر 2004 میں شاعری کا آغاز کیا پیر و مرشد کی شخصیت کا میرے مزاج پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ ابتدائی 3 سالوں تک میں نے صرف حمدیہ، نعتیہ، منقبتی اور صوفیانہ کلام کہے، بعد ازاں حسب مزاج دیگر مضامین کی طرف متوجہ ہوا۔ مجھے پیرزادہ حضرت صوفی ذیشان پاشاہ شطاری صاحب سجادہ نشین درگاہ صوفی نگر نے خلافت سلسلہ قادریہ شطاریہ سے بھی سرفراز فرمایا۔

 4. بر سبیل تذکرہ یہ بھی بتائیں کہ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ میں آپ کا موضوع کیا تھا؟ 
 جواب: میرا پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کا موضوع تھا برین ٹیومر کی تشخیص و علاج Immunotherapy سے۔ اس موضوع میں مجھے بہت دلچسپی تھی اور Immunology انسان کے مدافعتی نظام کا مضمون میرا پسندیدہ مضمون تھا، چنانچہ اسی مضمون کے موضوع پر میں نے تحقیق کی ہے۔ 

 5. آپ کا مولد و مسکن کیا ہے؟ 
 جواب: میرا مولد و مسکن شہر نظام آباد ہے۔ میں یہیں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور یہیں میری گریجویشن تک کی تعلیم ہوئی، پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی تکمیل کے بعد میں دوبارہ وطن عزیز لوٹ آیا یہیں میری بود و باش ہے۔ 

 6. نظام آباد میں ادب کی سمت اور رفتار بتائیں؟ 
 جواب: نظام آباد ادب بیدار لوگوں کا شہر ہے یہاں طرحی مقامی مشاعرے، ریاستی مشاعرے اور کل ہند مشاعرے کثرت سے منعقد ہوتے رہتے ہیں جس میں ملک کے تمام بڑے شعراء شرکت کرتے ہیں۔ یہاں ہر دور میں مشاق شعراء کی اچھی تعداد موجود رہی۔ یہاں کے سامعین بہت باشعور ہیں صرف اچھے شعر پر ہی شاعر کو داد دیتے ہیں۔ شہر کے کچھ کم سن لڑکے بھی شاعری کر رہے ہیں، إِن شَاء اللّٰہ یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہے گا۔ 

 7.   کونسی ادبی انجمنوں سے آپ کی وابستگی رہی؟ 
 جواب: صدائے اردو سوسائٹی نظام آباد کا معتمد رہا اس سوسائٹی کے زیر اہتمام تقریباً 50 طرحی و غیر طرحی مشاعرے منعقد کئیے اب یہ سوسائٹی فعال نہیں ہے۔ نصرت ایجوکیشنل سوسائٹی کا معتمد ہوں جس کے زیر اہتمام مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ واٹساپ گروپ بزمِ شاعری کو سن 2010ء میں اردو شاعری کے فروغ کے لئیے قائم کیا اس کا مہتمم (ایڈمن) ہوں۔

 8.   سائینس کے طالب علم ہونے کے باوجود ادب پر آپ کی گرفت بہت مضبوط ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
  جواب: سائینس کا طالب علم ہونے کے باوجود اردو ادب کی طرف میرا میلان میرے والدین، میرے پیر و مرشد اور برادر کلاں ذکی شطاری صاحب (جو خود بھی ایک شاعر ہیں) کے سبب ہوا بچپن ہی سے گھر میں شعر و ادب کا ماحول رہا اس ماحول میں میری پرورش ہوئی اور مجھ پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اپنی اردو دوستی کے سبب کالج میں جب کبھی سائنس سے فرصت ملتی تو میں صیغہ اردو کے طلباء اور پروفیسروں سے ملتا تھا اور ان کے ساتھ علمی و شعری نشستیں بھی ہوتی تھی۔ 

 9. شاعری کی طرف آپ کی رغبت کب ہوئی؟ 
 جواب: بچپن ہی سے شاعری کی طرف دلی میلان رہا۔ باضابطہ طور پر شاعری کا آغاز 19 سال کی عمر میں سن 2004ء کو کیا۔ ابتداء میں یہ ہوتا تھا کہ کچھ مصرع از خود خیال میں آتے تھے، میں نے اس کا ذکر پیر و مرشد سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان مصرعوں کو قلمبند کرتے جاؤ۔ میں نے پیر و مرشد کی نصیحت پر عمل کیا اور کلام لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا اور آپ سے اصلاح کا طالب ہوا، آپ نے انتہائی شفقت کے ساتھ میری حوصلہ افزائی فرمائی اور مجھے اپنے تلمذ میں لے کر شعری قوانین و قواعد سکھائے۔

 10. پہلا شعر یا غزل کب کہی آپ نے؟ 
 جواب: ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ میرا پہلا کلام نعتیہ تھا اسے میں نے سن 2004ء میں لکھا۔ 

 11. کیا آپ کے والد صاحب بھی شاعر تھے؟ 
 جواب: میرے والد حضرت صوفی شاہ غلام نبی نصرت ؔ شطاری صاحب ؒ ماہر عروض استاد شاعر تھے۔ 

 12. ان کی کوئی کتابیں اگر ہوں تو بتائیے؟ 
جواب: والد صاحب کی بیاض موجود ہے جلد ہی اس کو کتابی شکل دی جائے گی إِن شَاء اللّٰہ۔ 

 13. والدِ محترم کا انتقال کب ہوا؟ 
 جواب: 30 جنوری 2002 کو والد صاحب نے پردہ فرمایا۔

14. ان کے بغیر کیسی لگتی ہے دنیا؟ 
 جواب: ان کے بغیر دنیا کا یہ حال تھا جیسے ایک تپتے ہوئے صحرا میں کسی مسافر کے سر سے ایک سایہ دار درخت چھین لیا گیا ہو لیکن اس تپتے ہوئے صحرا میں میری والدہ نے مجھ پر اپنے آنچل کا سایہ کردیا اور تپتی ہوئی دھوپ سے بچایا۔ خانقاہ جاتا تھا تو پیر و مرشد مجھ پر ملتفت ہوتے، انہوں نے مجھے قدم قدم پر سنبھالا، ان دونوں ہستیوں نے مجھے والد صاحب کی کمی کا کبھی احساس ہونے نہیں دیا۔ 

 15. حضرت امیر خسرو سے آپ بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اس کی کچھ تو وجوہات ہوں گی؟ 
 جواب: حضرت امیر خسرو ؒ سے میں بے حد متاثر ہوں اور انہیں اپنا آئیڈیل مانتا ہوں آپ کا تعلق اشراف کے خاندان سے ہے شاعری، نثر نگاری، تاریخ گوئی، داستان، موسیقی، معرفت الٰہی یہ ان چند علوم میں سے ہیں جن پر آپ کو عبور خاصہ حاصل تھا آپ یکتائے روزگار، دانشور، مجموعہ علوم و فنون ہیں آپ ہی نے سب سے پہلے نستعلیق رسم الخط میں ہندوی زبان لکھی اور اس طرح اردو زبان کے ارتقاء کو ابتدائی تحریک دینے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ حضرت امیر خسرو ؒ اپنے علوم و فنون کی وجہ سے اپنے آپ میں ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اہل ہند میں کیا سلاطین کیا عوام ہر کوئی آپ کا دل سے احترام کرتا ہے۔ آپ کی ان غیر معمولی صلاحیات کے پیچھے آپ کے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی تربیت، حوصلہ افزائی اور روحانی رہبری کار فرما رہی بلکہ پیر و مرشد کی خصوصی توجہ نے آپ کو ایک ولی کامل اور عارف باللہ کے بلند مقام تک پہنچا دیا۔ حضرت خسرو ؒ کی شاعری الہامی ہے۔ تخیلات کی پرواز ایسی ہے کہ کسی انسان کے تصورات کی رسائی اس مقام تک ناممکن ہے جہاں سے خسرو ؒ کہتے ہیں خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو ؔ محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم (ایسی کیفیت کے سینکڑوں اشعار آپ نے کہے ہیں لیکن ایک انٹرویو میں ان سب کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اس لئیے اس ایک شعر پر ہی میں اکتفا کر رہا ہوں) آپ کے اشعار کی تشریحات مختلف اصلاحات میں الگ الگ معنویت کی حامل ہوتی ہے، عمومی اور لغوی معنی الگ ہوتے ہیں تو صوفیانہ اور عارفانہ اصطلاحات میں بیان کچھ اور ہی نظر آئے گا، آپ چلتے پھرتے فی البدیہہ اشعار کہا کرتے تھے یہ آپ کی اس شعری و فنی صلاحیت سے آپ کی زبردست قادرالکلامی کو ظاہر ہوتی ہے۔ ہم آج اردو زبان میں جو کچھ لکھ پڑھ رہے ہیں یہ سب حضرت امیر خسرو ؒ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جس شخصیت کے سبب آج دنیا میں ایک عظیم زبان پھل پھول رہی ہے ان کا احترام کرنا ان سے حسن عقیدت رکھنا میں اپنا فرض اور ادبی دیانت داری سمجھتا ہوں۔ 

 16. شاعری میں استادی اور شاگردی کی روایت بہت قدیم ہے۔ آپ نے کس کے آگے زانوئے ادب تہہ کئے؟ 
 جواب: میرے والد محترم خود ایک ماہر عروض استاد شاعر تھے لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں شاعری میں ان کا شاگرد نہ بن سکا میرے شعری سفر کے آغاز سے پہلے ہی والد صاحب کا وصال ہوگیا۔ یکے بعد دیگرے میں نے تین اساتذہ سخن سے اکتساب فیض حاصل کیا، ان میں سب سے پہلے استاد میرے پیر و مرشد حضرت صوفی احمد پاشاہ شطاری صاحب ؒ سجادہ نشین درگاہ صوفی نگر نرمل ہیں ابتدا میں جب میرے ذہن میں مصرع آتے تھے تو میں نے حضرت کی خدمت میں عرض حال کیا تو آپ نے فرمایا کے جو بھی خیال آئے اسے لکھ لیا کریں چنانچہ میں لکھتا گیا اور پیر و مرشد سے اصلاح لیتا رہا۔ شاعری کے بنیادی اصول جیسے بحر، ردیف، قافیہ وغیرہ میں نے آپ ہی سے سیکھے۔ اس دوران اورنگ آباد میں میرا پوسٹ گریجویشن ایم۔ ایس۔ سی میں داخلہ ہوا اور میں حصول تعلیم کے لئیے اورنگ آباد منتقل ہوا، وہاں مجھے پیر و مرشد نے آپ کے دوست کے فرزند حضرت سید اختر شطاری صاحب سے رجوع کروایا، حسب ارشاد میں نے اختر شطاری صاحب سے رجوع کیا اور ان سے اصلاح لیتا رہا۔ اختر شطاری صاحب نے مجھے شاعری کی بہت سی نزاکتوں اور لطافتوں سے واقف کروایا چست بندش، روانی، تمثیل اور اس کے علاوہ کئی محاسن سخن میں نے اختر شطاری صاحب سے سیکھے قیام اورنگ آباد کے دو سالوں میں مسلسل آپ سے ملاقاتوں کا شرف ملتا رہا اور اس دوران میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا۔ میرے تیسرے استاد حضرت ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ حسینی صاحب ہیں جو طریقت کی نسبت سے میرے جد اعلیٰ حضرت سیدنا شاہ ہاشم پیر دستگیر ؒ بیجاپور کے نبیرہ و جانشین بھی ہیں حضرت ہاشم پیر دستگیر ؒ کا زمانہ 400 سال پہلے کا ہے آپ دکن کے قطب ہیں اور آپ تاریخی اعتبار سے بھی آپ بہت خوبیوں کے مالک ہیں، دکن کا سلطان محمد علی عادل شاہ جو گول گنبد میں مدفون ہے آپ ہی کا مرید تھا۔ آپ کے ایک خلیفہ حضرت عطا ہاشمی ؒ ہیں، ان کا شمار دکنی کے ابتدائی شعرا میں ہوتا ہے حضرت ہاشم پیر دستگیر ؒ کے حکم پر عطا ہاشمی ؒ نے دکنی میں مثنوی یوسف و زلیخا لکھی، اس مثنوی کو اردو ادب کی پہلی مثنوی کا درجہ حاصل ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عظیم گھرانے کے روشن چراغ حضرت سید شاہ مرتضیٰ حسینی صاحب سجادہ نشین درگاہ حضرت ہاشم پیر دستگیر ؒ کی شاگردی کا شرف مجھے حاصل ہے۔ آپ نے مجھے علم العروض سکھایا، آپ ہی کی نگرانی میں آپ نے مجھ سے مشق کروائی یہاں تک کہ مجھے علم العروض اور تقطیع پر عبور آ گیا، آپ نے مجھے عروض کے علاوہ کئی محاسن و معائب سخن سے آشنا کروایا آپ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد میں خود مکتفی شاعر بن سکا۔ 

 17. کونسی زبانیں جانتے ہیں آپ؟ 
جواب: اردو، انگریزی، تیلگو یہ تین زبانیں جانتا ہوں اور ان تین زبانوں کی نصابی تعلیم بھی حاصل کی ہے، اس کے علاوہ عربی، فارسی، کنڑا، ہندی اور مراٹھی سے بھی واقف ہوں۔ 

 18. واٹساپ پر اس وقت کئی ادارے اور انجمنیں متحرک اور فعال ہیں، بزمِ شاعری کے بڑے چرچے ہیں اس کا قیام کیسے عمل میں آیا؟ 
 جواب: کالج کے دوست احباب کی شعری محفلیں ہوتی تھی جو زیادہ تر ہاسٹل میں ہوا کرتی تھی کچھ اشعار دوست احباب سناتے تھے کچھ میں سناتا ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور اہل ذوق احباب کا حلقہ بڑھتا گیا میرے کئی دوست مجھ سے مختلف موضوعات پر اشعار پوچھتے رہتے تھے چونکہ بیک وقت تمام حلقہ احباب تک رسائی ممکن نہیں تھی اس لئیے میں نے سن 2010ء میں اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ بزمِ شاعری واٹساپ گروپ کو قائم کیا، یہیں پر ہم لوگ اپنے اور منتخبہ اشعار بھیجتے رہتے تھے رفتہ رفتہ اس میں پروفیسرس، شعرا، صحافی حضرات اور کئی اہل ذوق جڑتے چلے گئے آج بزمِ شاعری میں ملک کے شمال و جنوب کے استاد اور نومشق شعراء موجود ہیں۔ گروپ میں بیت بازی، منظر پر شعر اور طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ آج کل صرف طرحی مشاعرے ہی چل رہے ہیں۔ 

 19. بزمِ شاعری کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ 
 جواب: بنیادی مقصد تو اردو شاعری کو فروغ دینا ہی ہے ساتھ میں کچھ اور باتوں کا بھی لحاظ رکھتا ہوں، میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ بزمِ شاعری میں نئے لکھنے والے شعراء کی حوصلہ افزائی کی جائے، اب تک بزمِ شاعری میں تقریباً دس لوگ ایسے ہوئے جو بحیثیت رکن شامل ہوئے اور بزمِ شاعری کے طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کر کے اب وہ باضابطہ طور پر شاعری کر رہے ہیں۔ استاد اور مشاق شعراء کے کلام کی پذیرائی کرنا بھی بزمِ شاعری کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ میں ہر ماہ بزمِ شاعری کے ایک شاعر کا تعارف لکھتا ہوں جس میں ان کے شعری و ادبی سفر کا احاطہ کرکے ان تفصیلات کو سوشیل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچاتا ہوں، اب تک میں 25 سے زائد شعراء کا تعارف لکھا ہے ان کو إِن شَاء اللّٰہ ایک کتابی شکل بھی دی جائے گی۔

 20. بزمِ شاعری کے زیرِ اہتمام اب تک کتنے مشاعرے ہوئے؟ 
 جواب: بزمِ شاعری کے زیر اہتمام اب تک 121 طرحی مشاعرے ہوچکے ہیں ان میں حمدیہ، نعتیہ، منقبتی اور غزل کے مشاعرے شامل ہیں۔ یہ مشاعرے ہفتہ واری ہوتے ہیں۔ 

 21. طرحی مصرعے اساتذۂ سخن کے ہوتے ہیں یا از خود آپ دیتے ہیں؟ 
 جواب: طرحی مصرعے کبھی اکابر اساتذۂ سخن کے دئیے جاتے ہیں تو کبھی میں خود لکھتا ہوں۔ پہلے ایک ہی طرحی مصرع دیا جاتا تھا لیکن بعد میں تین طرحی مصرعے الگ الگ بحروں میں دئیے جانے لگے۔ اس سے شعراء کو لکھنے میں سہولت رہتی ہے، تینوں میں سے اپنی پسندیدہ زمین اور بحر میں لکھا جا سکتا ہے۔ یہاں میں کچھ باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا، بزمِ شاعری میں جتنے بھی طرحی مصرعے دئیے جاتے ہیں میں ان تمام مصرعوں کے اراکین بحر لکھتا ہوں اور مشاعرے کے اختتام پر مشاعرے میں کہے گئے تمام مکمل کلاموں کی تزئین بنا کر انہیں سوشیل میڈیا کے مختلف پلاٹ فارمس پر شئیر کرتا ہوں تاکہ شعراء کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہو، اور میں اپنے پاس تمام مکمل کلاموں کا ریکارڈ محفوظ رکھتا ہوں۔ کئی شعراء نے جب اپنے شعری مجموعے چھپوائے تو ان میں تقریباً آدھے کلام بزمِ شاعری کے طرحی مصرعوں پر کہے گئے تھے، اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے کہ ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ تعمیر ادب میں بزمِ شاعری اپنی بے لوث خدمات انجام دے رہی ہے۔ 

 22. آپ کی تخلیقات کہیں شائع ہوتی ہیں؟ 
 جواب: میری شعری تخلیقات بہت کم شائع ہوئی، رسالہ گونج نظام آباد اور رسالہ دارالسرور، برہان پور میں کبھی کبھی میرا کلام چھپ جایا کرتا ہے۔ میری دو تحقیقی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں پہلی "تعارف شاہد عدیلی" ہے اور دوسری "اقبال شانہ، فن و شخصیت" ہے۔ اس کے علاوہ بزمِ شاعری میں ماہانہ ایک شاعر کا تعارف لکھتا ہوں جو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر شائع ہوتا ہے۔ 

 23. اشاعت کی طرف آپ کا رجحان کیوں ہوا؟ 
 جواب: اشاعت کی طرف رجحان کا سبب میرے احباب ہیں، انہی کے اصرار پر کبھی کبھار تخلیقات شائع کرواتا ہوں۔

 24. آپ کی کوئی شعری تصنیف ہے؟ 
 جواب: میری شعری تصنیف زیر ترتیب ہے إِن شَاء اللّٰہ جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔ 

 25. آپ ایک صاحب بصیرت شاعر کے ساتھ ماہر عروض بھی ہیں۔ علم عروض پر آپ کی گرفت کا راز بتائیں؟ 
 جواب: والد محترم کے شعر پڑھنے کے انداز سے بحر کے اراکین کا اندازہ ہوتا تھا اور اساتذہ کے کلام کے مطالعہ سے الفاظ کا صحیح تلفظ معلوم ہوتا تھا، رہا سوال علم عروض پر گرفت کا تو یہ میرے لئیے بہت محنت طلب کام رہا، مہینوں میں بحروں کے اراکین کو سمجھنے اور مصرعوں کی تقطیع کرنے پر مشق کرتا رہا اس کے باوجود بھی مجھے عروض پر عبور حاصل نہ ہو سکا جب میں اپنے تیسرے استاد حضرت ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ حسینی المتخلص بہ مرشد، سجادہ نشین درگاہ حضرت ہاشم پیر دستگیر ؒ بیجاپور کا شاگرد بنا تو آپ نے بہت ہی کشادہ قلبی و شفقت کے ساتھ مجھے علم عروض اور مصرعوں کی تقطیع کا طریقہ بہت آسان انداز میں سکھایا، چند ماہ آپ کی خدمت میں عروض کی مشق کرتا رہا اور آپ سے دیگر علمی نکات سیکھتا رہا حتیٰ کہ آپ نے اور میرے دوسرے استاد سید اختر شطاری صاحب اورنگ آبادی نے مجھے خود مکتفی قرار دے دیا۔ عروض کی مشق کے دوران مجھے بار بار داغ دہلوی کا شعر یاد آتا رہا نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے میرا تجربہ ہے کہ واقعی میں داغ کی بات بالکل درست ہے، اردو زبان میں مہارت یکبارگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ نعمت تو ملتے ملتے ملتی ہے۔ 

 26. غالب اور اقبال کے بارے میں بتائیں؟ 
جواب: غالب اور اقبال اردو کے ایسے شعراء ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو شاعری کا ڈنکا دنیا کے تقریباً ہر ملک میں بجایا۔ ان دونوں کے شعری مجموعوں کا ترجمہ اندرون و بیرون ملک کئی زبانوں میں ہوا۔ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں جہاں شعبہ اردو ہے خواہ وہ امریکہ کی ہوں یا جاپان کی ان کے نصاب میں غالب و اقبال شامل ہیں اور ان کے کتب خانوں میں دونوں شعراء کے شعری مجموعے موجود ہیں۔ اب رہا سوال غالب و اقبال کے متعلق میری رائے کا تو یہ بتاتا چلوں کہ ہر اہل علم کی اپنی ایک تحقیقی رائے ہوتی ہے، میرا غالب و اقبال کے تعلق سے یہ ماننا ہے اگر بات کا اختصار کے ساتھ احاطہ کروں تو ایک جملے میں یوں کہوں گا کہ غالب مست رند ہیں تو اقبال زاہد و عابد ہیں مثال کے طور پر ان کے کچھ اشعار پر غور فرمائیے:

 یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
 تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
 بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
 ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
 عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
 کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
 غالب

 بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
 مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
 سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
 حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
 تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
 ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
 اقبال

 27. آپ کی عمر کیا ہے؟ 
 جواب: میری عمر 34 سال ہے (16 اگست 1985 میری تاریخ پیدائش ہے). 

 28. . مصروفیت؟
 جواب: اپنے ہی مدرسے نیشنل ہائی اسکول اردو میڈیم کے انتظامی امور کا خیال رکھنا۔ 

 29. بیرونی دورے کئیے ہوں تو تفصیل بتائیں؟
 جواب: اندرون ملک ہی وطن عزیز نظام آباد، حیدر آباد، ناندیڑ، عادل آباد، جگتیال، اور دیگر کئی مقامات کے مشاعروں میں بحیثیت شاعر شرکت کی. 

 30. بزرگانِ دین کے ہاں حاضری دی آپ نے؟ وہاں کے روحانی مناظر کیا تھے اور آپ پر کیا کیفیت طاری ہوئی تھی؟  جواب: بزرگان دین عارفان حق ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو مقام فنا فی اللہ سے گزر کر راضی بہ رضائے الٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کا ہر فعل رضائے الٰہی کے لئیے ہوتا ہے غیر اللہ سے بے نیاز ہوکر ہمہ وقت ذکر و شغل میں مصروف رہتے ہیں ان حضرات سے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ راضی ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ مقام محبوبیت پر فائز ہوتے ہیں۔ ان کے مزارات پر ہمہ وقت انوار الٰہی کی بارش ہوتی رہتی ہے، جب ہم کسی ولی اللہ کے مزار کی زیارت کرتے ہیں تو اس ولی کے وسیلے سے انہی انوار، فیوض و برکات سے ہم بھی مستفید ہوتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ میرے بزرگ حضرت صوفی حسین علی شاہ قلندر قادری شطاری ؒ کے مزار پر انوار صوفی نگر نرمل پر مجھے اکثر حاضری کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ یہیں زیارت کے دوران میرے ذہن میں مصرعے بھی آتے تھے۔ میں نے اس بات کا ذکر پیر و مرشد حضرت صوفی احمد پاشاہ شطاری ؒ سجادہ نشین درگاہ صوفی نگر سے کیا آپ یہ جان کر خوش ہوتے تھے اور مجھے ان مصرعوں کو قلم بند کرنے کو کہتے تھے اس طرح میرے ابتدائی کلام کا آغاز ہوا۔ مجھے حضرت خواجہ غریب نواز ؒ، جد امجد حضرت شاہ وجیہہ الدین گجراتی ؒ احمدآباد(ولی دکنی آپ کے خاندان سے بھی ہیں اور آپ کی خانقاہ سے وابستہ بھی ہیں) ، جد اعلیٰ حضرت سیدنا شاہ ہاشم پیر دستگیر ؒ بیجاپور، حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ گلبرگہ، حضرت توکل مستان سہروردی ؒ بنگلورو، حضرت تاج الدین ؒ ناگپور، حضرت صوفی سرمست قلندر شطاری ؒ ناندورہ، حضرت قمر علی درویش ؒ پونے، اور کئی بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دینے اور اکتساب فیض کرنے کا شرف حاصل ہوا، ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ۔ 

31. . اقبال کی شاعری کا فکری ماخذ کیا ہے؟
 جواب: اقبال نے ہندوستان کا وہ زمانہ دیکھا جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی، انگریز ہندوستانیوں کو غلام سمجھتے تھے اور مشرقی تہذیب سے نفرت کرتے تھے۔ اہل ہند میں آزادی کی جدوجہد زوروں پر تھی۔ جس طرح ایک زندہ شاعر اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے اسی طرح اقبال نے بھی اپنے عہد کی خوب عکاسی کی۔ اقبال چونکہ داغ کے شاگرد تھے اس لئیے ان کی شاعری میں داغ کے اثرات بھی نظر آتے ہیں اور ان کی تخلیقات میں روایتی غزلیں بھی ملتی ہیں لیکن اقبال نے اپنے عہد میں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی، انہوں نے مظالم کا ذکر اور ان سے بچنے کے طریقے بیان کئیے۔ انہوں نے یورپ کا دورہ کیا اس دوران مغربی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھا۔ ان کی شاعری میں انہوں نے مغربی تہذیب کی برائیوں کا ذکر کیا اور مشرقی تہذیب کی خوبیوں اور انسانی قدروں کو اجاگر کیا یہاں تک کہ ان کو شاعر مشرق کہا جانے لگا۔ اقبال ایک دانشور اور مفکر تھے ان کے سینے میں اپنی قوم کا درد تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنی قوم کو اصلاحی پیغامات دئیے اور مردہ ضمیروں کو زندہ کرنے کا کام سر انجام دیا۔

 32. . غالب ایک عبقری شخصیت تو ہیں۔ غالب کی نثر کے بارے میں بتائیں؟
جواب: آپ نے درست فرمایا، غالب یقیناً ایک عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ غالب اپنا ایک شدید اور اٹل مزاج رکھتے تھے۔ خودداری اور بے نیازی ان کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں۔ یہی تاثرات ان کی شعری و نثری تخلیقات میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ غالب کے دور میں نثر نگاری خصوصاً مکتوب نگاری پر فارسی ادب کا گہرا اثر تھا اس میں داستانوں کا رنگ، قافیہ پیمائی، انشا پردازی میں داستانوں کے کرداروں کے ذریعے گفتگو کرنا شامل تھا۔ چونکہ غالب کے مزاج میں جدت اور ایجاد کی صلاحیت اتم درجے تک موجود تھی اس لئیے انہوں نے قدیم روایتوں کی تقلید کرنا پسند نہیں کیا بلکہ مکتوب نگاری میں انہوں نے اپنا الگ ہی راستہ بنایا جس کے وہ خود معمار بھی تھے اور مسافر بھی۔ انہوں نے نثر سے لایعنی مرصع گری کی لفاظی کو نکال کر اسے عام فہم اور سہل بنایا۔ مکتوب میں الفاظ کی بندش سے زیادہ موضوع کے بیان، جذبات کی عکاسی اور معنویت پر زور دیا۔ غالب کی اس روش نے جدید اردو نثر کی بنیاد رکھی جس کی تقلید بعد میں آنے والے نثر نگاروں نے کی اور یہ طریقہ اردو نثر کا مزاج بن گیا۔ غالب نے اپنے شاگردوں، دوستوں اور آشناؤں کو خطوط لکھے یہ خطوط آگے چل کر کتابی شکل میں شائع بھی ہوئے۔ انہوں نے نثر کو سادگی، بے تکلفی اور مکالمہ نگاری کے جامے پہنائے۔ ان کے مکتوبات میں جدت پسندی اور ڈرامے کا رنگ بھی ملتا ہے مکتوبات کے ساتھ غالب نے اخبار نویسی (رپورتاژ) بھی لکھی۔ 

 33. کس نارس شاعر کے اثر کو بھی آپ نے قبول کیا؟ 
 جواب: میں ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، مرزا غالب، بہادر شاہ ظفر، احمد فراز سے بے حد متاثر ہوں۔ اس فہرست میں کچھ ایسے بھی نام ہیں جنہیں نارس تو نہیں کہا جاسکتا البتہ ادبی دنیا کے کم ہی لوگ ان سے واقف ہوں گے ان میں میر حسن دہلوی، مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی، بیدم شاہ وارثی، کامل شطاری، حضرت صوفی سرمست قلندر ؒ شامل ہیں۔ ان شعراء کی شاعری کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ 

 34. فارسی زبان کے دو عظیم المرتبت شعراء حافظ شیرازی اور شیخ سعدی نے اردو شاعری پر کیا اثرات مرتب کئیے؟  جواب: اردو شاعری پر فارسی زبان کے تمام اکابر شعراء کے نقوش ملتے ہیں، اردو شاعری کے بنیادی اصول اور قواعد فارسی شاعری سے لئیے گئے ہیں اس لحاظ سے فارسی شعراء کا اثر اردو شعراء پر ہونا ایک فطری بات ہے۔ فارسی زبان کے ان دو عظیم شعراء حافظ و سعدی کے ذکر سے قبل میں فارسی زبان کے محسن مولانا رومی کا مختصر تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ رومی کے معاصرین اور متاخرین اہل فارسی پر رومی نے اپنے بہت گہرے اثرات مرتب کئیے ہیں۔ اگر فارسی زبان کی کسی کتاب کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے تو بلاشبہ وہ رومی کی مثنوی معنوی ہے اس میں 2666 اشعار ہیں رومی کی دیگر تخلیقات میں 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور نظمیں ہیں۔ رومی ایک جید عالم دین اور صوفی با صفا ہیں۔ آپ کی شاعری میں اسلامیات، فلسفہ اور زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ رومی کا بنیادی موضوع سخن تصوف ہے۔ آپ نے تصوف کے پیچیدہ ترین نکات کو انتہائی آسان انداز میں مثالیں دیتے ہوئے سمجھایا ہے۔ آپ کا تخیل بہت بلند و بالا ہے۔ رومی نے فارسی اور بر صغیر ہندوستان کے بے شمار لوگو‌ں کو متاثر کیا، ان میں عبدالرحمن جامی، اور علامہ اقبال قابل ذکر ہیں۔ آپ نے حافظ شیرازی اور شیخ سعدی شیرازی کا ذکر چھیڑا ہے، حافظ کی شاعری ایرانی تہذیب کی عکاس ہے۔ ان کا شمار فارسی کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ جمالیات، الفاظ کی نغمگی، لہجے کا اتار چڑھاؤ، ساقی اور محبوب سے مخاطبت کو حافظ نے اپنی شاعری میں کمال کے ساتھ شامل کیا ہے۔ حافظ شاعر ہونے کے ساتھ عالم دین بھی تھے انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی جو کہ اب نایاب ہے۔ حافظ کی شاعری میں قرآن اور حدیث کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں، عشق رسول ﷺ ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہوتا ہے حافظ کو ہندوستان کے متعدد لوگوں نے یہاں آنے کی دعوت دی لیکن شیراز کی محبت نے انہیں کہیں جانے نہیں دیا۔ سعدی شیرازی فارسی زبان کے ایک ذہین و دانشور شاعر، ادیب اور نثر نگار ہیں۔ ان کی شاعری میں فلسفوں کا بیان کثرت سے ملتا ہے۔ ان کے کلام سے بزرگی جھلکتی ہے۔ ان کہ غزلیں اور بالخصوص نظمیں دنیا بھر میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ سعدی کی دو کتابیں مقبول خاص و عام ہیں ایک گلستان سعدی اور دوسری بوستان سعدی۔ اہل ہند کے متعدد اردو دانوں نے ان کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ شاعری کے ساتھ سعدی کی حکایات بھی بہت مشہور ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں بڑے دلچسپ پیرائے میں سعدی نے پیش کی ہیں، بات ایسی کہ سیدھے دل میں اتر جائے اور سامع کے ذہن پر اپنا گہرا اثر چھوڑ دے۔ رومی، حافظ اور سعدی ان تینوں شعراء سے اردو ادب نے خوب استفادہ حاصل کیا ہے، کئی محاسن ان کے نقش قدم پر چلنے سے اردو شاعری کا اہم حصہ بن گئے۔ 

 35. . شعر کہنے کے لئیے بنیادی چیز جو ناگزیر ہے بتائیں؟ 
 جواب: شعر کہنے کے لئیے ایک نہیں کئی بنیادی باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلے شعر گوئی کے لئیے علم کا ہونا ضروری ہے علم سے ہی انسان کو گفتگو کا انداز، لہجہ اور نزاکت کی تمیز پیدا ہوتی ہے، محض قافیہ پیمائی کا نام شاعری نہیں اگر ایسا ہوتا تو بازار کے سبزی فروش بھی قافیہ پیمائی کرتے ہیں وہ بھی شاعر کہلاتے۔ دوسری بات یہ کہوں گا کہ شاعری کرنے سے پہلے اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ شعر کہنے کے اطوار سے واقفیت ہو، شاعری ایک ادبی ورثہ ہے اس کو آگے بڑھانے کے لئیے ماضی کے احوال سے واقفیت لازمی ہے تاکہ ہم آگے کا راستہ منتخب کر سکیں۔ تیسری بات یہ کہ علم عروض سے واقفیت ہونی چاہیے، اگر مکمل عبور نہ ہو تو مشق کرکے کم از کم تقطیع کے اصولوں اور شاعری کے اصولوں اور زبان کے قواعد ضرور سیکھنا چاہیئے م۔ میں نے کئی شعراء کو بہانہ تراشتے دیکھا ہے کہ کوئی استاد نہیں ملتا، تعجب ہے، ڈھونڈنے والوں کو خدا مل گیا، استاد تو پھر بھی مخلوق ہے۔ 

 36. متقدمین شعراء میں آپ کس سے زیادہ متاثر ہیں؟ 
 جواب: متقدمین میں میں حضرت امیر خسرو ؒ، ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، خواجہ میر درد، مرزا محمد رفیع سودا، مرزا غالب، بہادر شاہ ظفر، مومن خان مومن، بیدم شاہ وارثی، کامل شطاری، احمد فراز سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ ان شعراء میں کچھ نہ کچھ انفرادی خصوصیات ہیں، انہوں نے اردو شاعری کی معماری کی ہے۔ 

 37. آپ چونکہ تنقیدی بصیرت بھی رکھتے ہیں یہ بتائیں کہ عصر حاضر میں مشاعروں کی صورت حال کیا ہے؟ 
 جواب: مشاعروں نے اردو کے ابتدائی دور سے ہی اردو شاعری کی ترویج میں اہم کردار نبھایا ہے، یہ روایت صدیوں سے اردو ادب میں چلتی آرہی ہے۔ بادشاہوں کے درباروں میں شاہی مشاعرے ہوا کرتے تھے اور خانقاہوں میں نعتیہ منقبتی اور صوفیانہ مشاعرے منعقد ہوتے آ رہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ہر دور کی ضرورت کے لحاظ سے مشاعروں کی نوعیت میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی۔ مثلاً دہلی میں جب خواجہ میر درد کے پاس مشاعرہ ہوتا تھا تو محفل میں شرکت کی شرط یہ تھی کہ شروع سے آخر تک دو زانو بیٹھا جائے، کسی کو بھی پیر پھیلا کر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ شہزادہ مشاعرے میں موجود تھا اس نے درد صاحب سے اجازت مانگی کہ وہ دو زانو زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا لہذا اسے پیر پھیلانے کی اجازت سی جائے، درد صاحب نے کہا کہ محفل کے آداب کو کسی کے لئیے بھی نہیں بدلا جاسکتا اگر آپ کو بیٹھنے میں دشواری ہے تو بہتر یہ ہوگا کہ آپ مشاعرے سے رخصت لیں، شہزادہ چونکہ درد صاحب کا بہت احترام کرتا تھا اس لئیے اس نے ضد نہیں کی اور محفل سے رخصت ہو گیا۔ آج کے مشاعروں میں اس قسم کے آداب کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے بلکہ آج کل تو سامعین کے لئیے آرام دہ کرسیوں کے ساتھ پانی اور چائے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے بہر حال عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مشاعرے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو مذہبی مشاعرے جن میں حمدیہ، نعتیہ اور منقبتی کلام پڑھے جاتے ہیں دوسرے غزل کے مشاعرے جن میں نظمیں بھی پڑھی جاتی ہیں ان کی ایک ذیلی قسم مزاحیہ مشاعروں کی بھی ہے۔ دینی مشاعرے تو بہت عقیدت کے ساتھ منعقد کئیے جاتے ہیں اور انہیں عقیدت کے ساتھ سنا بھی جاتا ہے۔ غزل کے طرحی مشاعروں کا ماحول ادبی ہوا کرتا ہے جب کہ غیر طرحی مشاعرے اگر مخصوص سامعین کے لئیے ہوں تو ادب کی کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں اور اگر یہی مشاعرے عوامی ہوں جن میں سامعین کی تعداد سینکڑوں میں رہے وہ مشاعرے ادبی کم اور سیاسی یا کمرشیل زیادہ ہو جاتے ہیں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ہر مشاعرہ اردو شاعری کی ترویج میں اپنا انفرادی کردار ادا کرتا ہے، ہر دور میں خانقاہوں کے مشاعروں نے اردو شاعری کی ترویج اور فروغ کا کام کیا ، یہ مشاعرے سیاسی یا مالی مفاد سے مبرا ہوتے ہیں اور عام حالات کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہندوستان میں ایسی سینکڑوں خانقاہیں ہیں جو صدیوں سے بلا توقف مسلسل مشاعرے منعقد کروا رہی ہیں اور ان کے ذریعے عوام شعر و ادب سے جڑی ہوئی ہے۔ 

 38. اردو کے شعراء میں سبھی نے رباعیات کہی، جو شہرت امجد حیدر آبادی کو حاصل ہوئی کسی کو نہیں مل سکی، اس کی کیا وجہ ہے؟ 
 جواب: امجد حیدر آبادی اردو کے ایک عظیم شاعر ہیں ان کو شہنشاۂ رباعیات کے لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ امجد نے غزلیں اور نظمیں بھی بہت کمال کی کہی ہیں لیکن رباعیات کی شہرت میں ان کے دیگر کلاموں کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہو پائی جس کی وہ مستحق تھی، بہر حال موضوع سخن یہاں امجد کی رباعیات کی مقبولیت ہے تو میری نگاہ میں اس کی چند خاص وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ امجد نے رباعیات عام فہم اور سہل زبان میں کہی، دوسری اہم بات یہ ہے کہ امجد شاعر ہونے کے ساتھ ایک درویش صفت انسان تھے قرآن اور حدیث کا علم رکھتے تھے اپنی رباعیات میں امجد نے کئی جگہ قرآنی آیات اور احادیث کے عربی الفاظ کو مصرعوں میں باندھا اور رباعی میں قاری کو متاثر کرنے والا پیغام چھپا کر رکھتے تھے اس کے علاوہ فلسفہ، اخلاقیات، چست بندش، روانی جیسے کئی محاسن امجد کی شاعری میں موجود ہیں، آخری بات یہ کہوں گا کہ امجد نے رباعیات بہت جاں فشانی سے کہی ہیں اتنا ہی نہیں ان کی رباعیات کثیر تعداد میں ہیں اور ہر رباعی اپنی جگہ اپنی اہمیت لئیے ہوئے ہے۔ ان خوبیوں کے بدولت امجد حیدر آبادی کی رباعیات کو بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ 

 39. . ہمعصر شعراء میں آپ کس سے امیدیں یا توقعات وابستہ رکھے ہوئے ہیں؟ یعنی آپ کا اعتماد کس پر ہے؟
 جواب: فی زمانہ ملک کے تقریباً تمام خطوں میں اردو کے ایک سے بڑھ کر ایک قابل شعراء موجود ہیں جنہوں نے شاعری کی خدمت کی ہے پہلے کے مقابلے میں با صلاحیت اور نمائندہ شعراء کی تعداد میں کمی ضرور ہے لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اردو شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایسے تمام شعراء کا ذکر کرنا ناممکن ہے لیکن بر سبیل تذکرہ کچھ نام لوں گا ان میں راحت اندوری، منور رانا، اقبال اشہر، نعیم اختر خادمی، عزم شاکری، ندیم شاد، کنور جاوید، راجیش ریڈی، حامد بھساولی ان کے علاوہ کچھ استاد شعراء اپنے مکتب کا کام بھی چلا رہے ہیں ان میں ڈاکٹر فاروق شکیل، شاہد عدیلی، لطیف شاہد برہان پوری، وغیرہ شامل ہیں۔ 

 40. چند شعراء جو اپنے عہد کی عکاسی کر رہے ہیں ان کے نام بتائیے؟ 
 جواب: 39 ویں سوال کے جواب میں جن شعراء کا ذکر میں نے کیا وہ سب اپنے عہد کی عکاسی کر رہے ہیں، یاد رہے کہ یہ وہ شعراء ہیں جنہیں عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، کئی شعراء ایسے بھی ہیں جو ادبی دنیا سے دور گوشہ گمنامی میں اپنا کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنی حصے کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

 41. ادب میں ترقی پسند تحریک کے اثرات کس حد تک ہیں؟ 
 جواب: ترقی پسند تحریک کے اثرات ادب پر ضرور ہوئے اس کا رنگ کچھ شعراء و ادباء کی تخلیقات میں نظر آتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اردو زبان کا اپنی صدیوں پرانی تہذیب سے بہت گہرا اور مضبوط تعلق ہے، اس پر متقدمین و اکابرین کے نقوش اتنے گہرے ہیں کہ ان کو مٹا کر نئی باتوں کو شامل کرنے قریب ناممکن بات ہے۔ اردو ادب نے ہر زمانے میں کچھ بیرونی اثرات اپنے اندر جذب ضرور کئیے ہیں بشرطیکہ وہ اس کی روایات اور تہذیب سے اختلاف نہ رکھتے ہوں۔

 42. جدیدیت سے آپ کس حد تک متاثر ہیں؟ 
 جواب: میرا ماننا یہ ہے کہ شعراء کے ہجوم میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے لئیے ایک شاعر میں جدت پسندی کا ہونا لازمی ہے۔ پچھلے ادوار سے آج تک ان ہی شعراء کے نام زندہ ہیں جن کے مزاج میں جدت پسندی تھی اور وہ نئی ایجادات کے پر زور دیتے تھے، اس کی سب سے بڑی مثال غالب ہیں۔ غالب نے اپنے عہد کے امتزاج سے ہٹ کر اپنے منفرد انداز میں شاعری کی شاید اسی لئیے ان کی زندگی میں ان کو ویسی مقبولیت نہیں ملی جو ان کی وفات کے بعد ان کی شعری خوبیاں کھلنے سے ملی۔ این بات اور قابل ذکر ہے آج کل دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کئی لوگ جدیدیت کے نام پر بے تکی ترکیبات استعمال کر رہے ہیں ایسی ایسی تشبیہات لا رہے ہیں جن سے معنویت کا دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ایسی جدیدیت سے تو بچنا چاہیے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ جدیدیت وہ ہے کہ جس میں شاعر عام مستعمل لہجے اور بندشوں سے ہٹ کر چونکانے والی بات کرے بشرطیکہ وہ قواعد کے دائرے میں ہو اور معنی خیز ہو۔ 

 43. مراٹھی کے ایک ادیب کہتے ہیں ہم سب کچھ لکھ سکتے ہیں صرف غزل ہی ایک ایسی صنف ہے جو آسانی سے ہاتھ نہیں لگتی اس کی کیا وجہ ہے؟ 
 جواب: اردو غزل ایک ایسی صنف ہے جس میں ایک مصرعے یا شعر کے کئی اصطلاحات میں کئی معنی نکلتے ہیں دوسری ادبی اصناف کے بر خلاف غزل کسی ایک موضوع پر پابند نہیں رہتی، اس کا میدان بہت وسیع ہے۔ شاعر اپنے تخیل کے دم پر کبھی زمین تو کبھی آسمان کی بات وہ بھی لطافت سے بیان کر سکتا ہے۔ غزل کے کئی رنگ ہیں، بنیادی طور پر محبوب سے ہمکلام ہونا، صوفیانہ رنگ، حالات کی عکاسی کرنے والے اشعار رشتوں کی قدر، طنز، مزاح، تند گوئی، نرم کلامی، شیرینی، وغیرہ، کمال یہ ہے کہ ان تمام کیفیات کو اگر شاعر چاہے تو ایک ہی غزل میں شامل کر سکتا ہے، یہ کمال صرف غزل میں دکھایا جا سکتا ہے۔ 

 44. . کہا جاتا ہے جب تک ادیب یا فن کار اپنی ذات میں معتبر نہیں ہوتا تب تک اس کی تحریر بھی اعتماد پا نہیں سکتی، کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟ 
 جواب: جی ہاں میں اس بات سے متفق ہوں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ایک فنکار کا سب سے بڑا استاد وہ خود ہے۔ پہلے تو یہ بہت اہم ہے کہ وہ اتنا علم ضرور حاصل کرے جس سے صحیح اور غلط کی تمیز کر سکے۔ اساتذہ کا مطالعہ کرکے معیار و اسلوب کو سمجھے اور پھر خود اپنا جائزہ لے محاسبہ کرے اور مشق کرتا رہے اور اس مشق کو معیار کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھے کہ آیا اس کی تخلیق میں کچھ فنی خوبی ہے یا نہیں، اگر ہے تو پھر اپنے آپ پر اعتماد کر کے اپنی تخلیقات دوسروں تک پہنچائے۔ اگر فنکار خود ہی اپنی تخلیقات سے مطمئن نہیں ہے تو اس کے پیشکش میں پختگی نہیں رہے گی، اس طرح تو سامع یا قاری کو مطمئن کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ 

 45. . مختلف ریاستوں میں بلکہ بیرون ملک میں آپ کے شاگرد ہیں آپ ان کے کلام کی اصلاح کیسے کرتے ہیں؟ 
 جواب: ٱلْحَمْدُ لِلّٰهِ میں علم عروض اور شعری قواعد سے واقف ہوں اور کئی شعراء کی باضابطہ اصلاح بھی کرتا ہوں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ علم اللہ کی دین ہے والدین اور اساتذہ اور اپنی مشق سے یہ مجھے ملا، جو کچھ میرے پاس ہے اس کو میں امانت سمجھتا ہوں اور اگر اس امانت کو مستحق تک نہ پہنچاؤں تو ناانصافی ہوگی۔ اس لئیے میں اصلاح و تدریس کا کام کرتا ہوں۔ پہلے اصلاح کاغذ پر ہوتی تھی آج کل موبائل فون کے مسیجس کے ذریعے ہو رہی ہے۔ میری عادت یہ ہے کہ میں اصلاح کے وقت جب کسی غلطی کو درست کرتا ہوں تو شاگردوں کو اس کی توجیہہ ضرور بتاتا ہوں تاکہ ان کو صحیح اور غلط کا علم ہو اور آئندہ وہ غلطی کرنے سے بچ سکیں۔ میں اپنے طور پر نو مشق شعراء کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تاکہ وہ مایوسی سے بچ سکیں۔ 

 46. اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے بعد شاعری کرنا شاگردوں کے کلام کی جانچ کرنا طرحی مصرعے دینا اتنا وقت نکال پاتے ہیں آپ؟ 
 جواب: جب کوئی کام ہمیں دل سے پسند ہوتا ہے تو اس کے لئیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکل ہی جاتا ہے۔ شاعری میرا شوق ہے اور شوق کا کام کرنا کسے پسند نہیں ہوتا، میں بھی کچھ وقت نکال ہی لیتا ہوں ہاں البتہ اصلاح اور طرحی مشاعروں کی مصروفیات کے سبب آج کل اپنی تخلیقات کے لئیے وقت بہت کم مل رہا ہے، إِن شَاء اللّٰہ اس کا بھی منظم انداز میں انتظام کروں گا۔ 

 47. . آپ بیک وقت نقاد شاعر ماہر عروض ہیں اس انٹرویو کے ذریعے آپ کیا پیغام دینا چاہتے؟
 جواب: اس انٹرویو کے ذریعے میں یہی کہنا چاہتا ہو‌ں کہ اردو ہماری مادری زبان ہے، ہماری تہذیب ہے آج اردو زبان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے نو جوان نسل اردو لکھنے پڑھنے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اپنی زبان کو زندہ رکھنا اور اگلی نسل تک اس کو پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری۔ میں اپنے لوگوں سے یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنے بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا ضرور سکھائیں اور اپنے اس عظیم ورثے کو سنبھال کر رکھیں اور اس کو آگے بڑھائیں۔ 

48. . آپ کونسی اصناف سخن کو محبوب رکھتے ہیں؟ 
جواب: میں تمام اصناف سخن میں نعت کو بے حد محبوب رکھتا ہوں۔ قرآن شریف میں دیکھ لیجیے اللہ نے کہیں "وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ" اور کہیں "اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَ" تو کہیں "وَالضُّحٰی" کہہ کر اپنے محبوب ﷺ کی تعریف بیان فرمائی۔ معلوم ہوا کہ نعت لکھنا اور رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کرنا سنت الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے محبوب کا امتی بنایا اور سرکار کے طفیل ہی ہمیں سب کچھ ملا اب اگر ہمارے پاس شاعری کا فن ہے اور ہم اس فن سے سرکار دو عالم ﷺ کی نعت نہ کہیں تو اس سے بڑی بد دیانتی اور کیا ہوگی ادیب رائے پوری نے کیا خوب کہا

 شعور نعت بھی ہو اور زبان بھی ہو ادیب
 وہ آدمی نہیں جو ان کا حق ادا نہ کرے
 میں بچپن سے نعت خوانی بھی کرتا تھا، پیر و مرشد کی صحبت سے نعت کا ذوق اور بھی بڑھ گیا اب میں کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ نعتیں کہوں۔ اپنی تنظیموں میں طرحی نعتیہ مشاعرے بھی کرواتا ہوں۔ نعت کے بعد منقبت اور صوفیانہ غزل مجھے بہت پسند ہے۔ 

 49. اپنے کچھ کلام سنائیے؟
 جواب: نعت:
 سراپا ظل یزدانی محمد
 رموزِ سِرِ وحدانی محمد 
 وہ دل پھر بن گیا رشکِ دو عالم
 کریں جس دل پہ سلطانی محمد 
 ہزاروں بار بہتر سروری سے
 تمہارے در کی دربانی محمد 
 نچھاور آپ کی سادہ روی پر
 جہاں بھر کی جہاں بانی محمد
 رضیؔ ہے آپکا ادنیٰ گداگر
 ٹلے اس کی پشیمانی محمد

 نعت:
 توحید کی مَے ہے اور پیمانہ محمد کا
 چلتا ہی رہے یارب میخانہ محمد کاآؤ اے جہاں والوں سب ان سے
 ضیا لے لو
 سورج کی طرح ہے ہر پروانہ محمد کا 
 بس عشقِ محمد کا دیتا ہے سبق سب کو
 ہے سب سے بڑا عاقل دیوانہ محمد کا
 نظروں سے میرے آقا وہ جام پلاتے ہیں
 بے فکر ہی رہتا ہے مستانہ محمد کا
جبریل نے دیکھا تھا بس دیدۂ حیرت سے وہ جانا محمد کا وہ آنا محمد
 محشر میں مجھے یارب یہ کہہ کے پکاریں سب
 دیوانہ محمد کا دیوانہ محمد کا 
اللہ رضیؔ کی بس اتنی سی گزارش ہے  دل اس کا رہے ہر دم کاشانہ محمدکا

 نعت :
 آپ گنجینۂ عرفان مدینے والے
 یعنی اللہ کی پہچان مدینے والے
 یہ بھی احسان کہ احسان جتایا ہی نہیں
 کتنے ہیں آپ کے احسان مدینے والے
 جَو کی روٹی ہے غذا اور چٹائی بستر جب کہ عالم کے ہیں سلطان مدینے والے
 کیا بگاڑیں گے جہاں بھر کے مصائب اس کا
 آپ ہوں جس کے نگہبان مدینے والے
اس کے قدموں میں ہیں شاہانِ زمانہ بے شک

آپ کا جو ہوا دربان مدینے والے 
اشرفِ خلق ہے اس واسطے نسلِ آدم
 نوعِ انسان کی ہیں شان مدینے والے
 آسمانوں پہ فرشتوں نے کہا یہ باہم
 آج رب کے ہوئے مہمان مدینے والے
اُن کی چاہت ہی تو ایمان کی ضامن ہے رضیؔ
 یعنی ایمان کی ہیں جان مدینے والے

منقبت:
 علی کو مصطفیٰ کا نائب و دل دار کہتا ہوں
 علی کو فاتحِ کُل حیدرِ کرار کہتا ہوں  
علی کو علم کا در دِین کی دستار کہتا ہوں 
علی کو ہر ولی کا والی و سردار کہتا ہوں
علی کو چشمہ فیضِ شہ ابرار کہتا ہوں
علی کو غمزدوں کا مونس و غم خوار کہتا ہوں
 علی کو میں رسول اللہ کی تلوار کہتا ہوں
علی کو دشمنان دِیں پہ رب کا وار کہتا ہوں 
علی کے عاشقوں کو صاحبِ کردار کہتا ہوں 
علی کے حاسدوں کو دین کے غدار کہتا ہوں
یہی  میرا وطیرہ ہے یہی میرا وظیفہ ہے
علی مولیٰ علی مولیٰ ہزاروں بار کہتا ہوں
رضی ہو شاعری کا حق ادا اس واسطے میں بھی
مِرے مولیٰ علی کی شان میں اشعار کہتا ہوں

 رسولِ پاک کے نورِ نظر امام حسین 
 ابو تراب کے لختِ جگر امام حسین
کبھی وہ ہوتا نہیں در بدر امام حسین 
 کہ جس پہ آپ نے ڈالی نظر امام حسین
 یہ التجاء ہے مِری مختصر امام حسین
 بنائے رکھئیے کرم کی نظر امام حسین
 یزیدی فتنے اٹھاتے ہیں سر امام حسین
 ذرا سا لیجئیے پھر سے خبر امام حسین
 حسب ہے اعلیٰ و ارفع نسب بلند ترین
ہر اعتبار سے ہیں معتبر امام حسین
 رضا و صبر، قناعت و استقامت ہی
 فقط تھے آپکے زادِ سفر امام حسین
کیا جو نانا سے وعدہ اسے نبھانے کو
نہ چھوڑی آپ نے کوئی کسر امام حسین 
 بجز تمہارے کسی کا بھی یہ کمال نہیں 
رہِ خدا میں دیا گھر کا گھر امام حسین 
یکایک اڑ کے مِرا دل پہونچ گیا کربل
اگر چہ اسکو نہیں بال و پر امام حسین 
 رضیؔ اسی کو ملی بس کہ عشق کی منزل
کہ جسکی راہ کے ہوں راہبر امام حسین

 آپ نورِ خدا
 آلِ شمس الضحیٰ
آپ کی ابتدا
 صبر کی انتہا
 مژدۂ جاں فزا
 شاۂ کرب و بلا

 آپ سبطِ نبی
 آپ ابنِ علی
 آپ حرفِٔ جلی
 سیدی مرشدی

آپ گل گوں قبا
 شاۂ کرب و بلا
 راۂ پرُ خار میں
 بیچ منجدھار میں
تیر و تلوار میں
 حالتِ زار میں
 آپ حق کی صدا
 شاۂ کرب و بلا


 کم نگاہی مِری
 کَج بیانی مِری
 بے نوائی مِری
 نا شناسی مِری
 کیا کرے گی ثنا
 شاۂ کرب و بلا


 میرے کردار پر
 میرے اطوار پر
میری گفتار پر
 میرے افکار پر
رنگ اپنا چڑھا 
شاۂ کرب و بلا
 روزِ محشر مجھے 
آپ کے ہاتھ سے 
جامِ کوثر ملے
میری بگڑی بنے
 ہے مِری التجا
شاۂ کرب و بلا
 آپ کا مرتبہ
 فہم سے ماسوا
 میں نے بس برملا
 اے رضیؔ کہہ دیا
ہوں غلام آپ کا 
شاۂ کرب و بلا

 "مریدی لا تخف" جب کہہ دیا ہے غوثِ اعظم نے
مریدوں پر بڑا احساں کیا ہے غوثِ اعظم نے
 لٹیروں کے دلوں کو پھیر کر توبہ بھی کروائی 
بُرے جو تھے انہیں اچھا کیا ہے غوثِ اعظم نے
 لقب ان کا محی الدیں بڑی ان کی کرامت ہے
نبی کے دین کو زندہ کیا ہے غوث اعظم نے
ہزاروں میل سے کہتا تھا کوئی المدد یاغوث
اسے بغداد میں رہ کر سنا ہے غوث اعظم نے 
کرم ہے غوثِ اعظم کا کہاں تھا اس کے میں قابل
رضیؔ دامن میں جو مجھ کو لیا ہے غوثِ اعظم نے

 غزل
 تِری الفت میں پیش آئی مصیبت اپنی حالت کو
 جگر کو دل کو جاں کو روح کو آنکھوں کو قسمت کو
کیا بالائے طاق اس حسن کی قاتل نگاہوں نے
 سپر کو تیغ کو نیزے کو لشکر کو شجاعت کو
سراپا آفتِ دل قد و قامت سے ہوا خطرہ 
خرد کو ہوش کو فہم و ذکا عقل و ذہاہت کو
بلندی کوئی کیا جانے کہ جس پر رشک آتا ہے
 فلک کو چاند کو تاروں کو مہتابوں کو رفعت کو
 ملے گا جو مِرا قاتل تو میں فرصت سے دیکھوں گا
 نگہ کو ناز کو انداز کو پیکر کو قامت کو
 کیا اللہ نے جاناں فقط تیرے لیے پیدا
زمیں کو آسماں کو خشک و تر کو ساری خلقت کو
 رضیؔ کچھ بھی نہیں ان کے تصور ہی نے جنبش دی  
قلم کو حرف کو مضمون کو لفظ و کتابت کو

محبت کا اثر ہے اور میں ہوں 
کرم کی اِک نظر ہے اور میں ہوں 
تمہاری آزمائش کے مقابل
حیاتِ مختصر ہے اور میں ہوں
 خدا کے فضل سے یہ سرفرازی
 قلندر کا نگر ہے اور میں ہوں 
نبی کی پیروی مذہب ہے میرا
 نبی کی رہ گزر ہے اور میں ہوں
بہت ہی مختصر سی ہے کہانی
وہی اِک ذی اثر ہے اور میں ہوں 
رضیؔ دونوں ہیں اس کے نام لیوا
 رقیبِ کم نظر ہے اور میں ہوں
 ترے ہی حکم سے میں ہر نفَس میں آتا جاتا ہوں
 عجب منظر قدم در ہر قدم دکھلایا جاتا ہوں
 کبھی میں بے نیازی میں دو عالم سے مبرا ہوں
 دو عالم کو کبھی میں اپنا سرمایہ بتاتا ہوں
 ارے ظاہر پرستو عاجزی پر میری مت جاؤ
 میں اک قطرہ ہوں پر قطرے میں اک دریا چُھپاتا ہوں
 حقیقت میں رضی اپنا تعارف سب سے کرواؤ
 حسینی ہوں نبی کے اور علی کے گیت گاتا ہوں

 نظم
 صدائے دل / دل کی آواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایک تاریک شب میں اِک شاعر
 اس کے دل پر ہوا تھا کچھ ظاہر
 جانے کیا آیا قلبِ بے کَل میں
 چلتے چلتے گیا وہ جنگل میں
 جا کے جنگل میں زور سے چیخا
 اپنے ماتھے کو ہاتھ سے پیٹا
 کون ہے جو مجھے بلاتا ہے
 میرے دل کا سکوں اُڑاتا ہے
 اس نے دیکھا عجیب اِک منظر
 اور حیرت کا وہ بنا پیکر
 دیکھ کر دنگ ہو گیا شاعر
 صورتِ سنگ ہو گیا شاعر
اِک حسیں نازنیں پری پیکر
خاک پر تھی پڑی ہوئی گر کر
 دیکھ کر اس کو کچھ وہ گھبرایا
گفتگو کرنے اس سے شرمایا
 آگے بڑھ کر اسے سلام کیا
 اور پھر اس طرح کلام کیا
 حالِ دل اپنا کچھ سنا بھی دے 
نام کیا ہے تِرا بتا بھی دے
 اپنی بوجھل سی آنکھ کو کھولی
 اٹھ کے مشکل سے کچھ ذرا بولی 
حالِ دل میرا پوچھنے والے
 زخم میرے کریدنے والے
 دل نے تیرے مجھے کِیا ظاہر 
نام میرا غزل ہے اے شاعر
 مجھ کو خسروؔ نے راہ دکھلائی
 بادشاہوں نے کی پذیرائی
 تھے ولیؔ اور سراجؔ دوست مِرے
 میری پہچان تھی بنی جن سے
 میرؔ و غالبؔ تھے آشنا میرے
 داغؔ و مومنؔ تھے ہم نوا میرے
 لاکھ باتوں کی بات کہتی تھی
میں اشاروں میں بات کرتی تھی 
عاشقوں نے مجھے سنوارا تھا
 صوفیوں نے مجھے نکھارا تھا
 شاہی درباروں کی میں عزت تھی
 مطربوں کے دِلوں کی چاہت تھی
 تھی محبت ہی میری روح رواں
 اب نہ جانے چلی گئی وہ کہاں
اب نہ وہ لوگ ہیں نہ عظمت ہے
 قابلِ رحم میری حالت ہے
 اب نہ دلہن ہوں اور نہ رانی ہوں
ہوشیاروں میں میں دِوانی ہوں
 سن کے شاعر بہت ہوا نادم
 بولا رکھوں گا میں تجھے قائم
 جب کبھی میں قلم اٹھاؤں گا
جان و دل سے تجھے سجاؤں گا
 میں تیرے حسن کا ہوں دیوانہ
شمع تو ہے میں تیرا پروانہ
 ختم تجھ کو نہ ہونے دوں گا میں 
تیری عظمت نہ مٹنے دوں گا میں
 تیری عزت پہ جان واروں گا
 خونِ دل سے تجھے سنواروں گا

 منظوم تفہیم درود تاج (بموقعہ یکم ربیع الاول 1440 ھ) 
 خدا کے نام ہی سے ابتدا ہو
 ہے رحمٰن و رحیم و کبریا جو
 درود ان پر الٰہ العالمیں ہو
 مِرے سردار ہیں آقا مِرے جو
 ہے جن کا تاج اور معراج جن کی
براق ان کی سواری بھی رہی تھی
 وہ جو حق کے علمبردار آئے
وبائیں اور بلائیں ختم جن سے
 قحط، بیماریاں دکھ درد سارے 
ہوئے سب دور آقا سے ہمارے
 جہاں بھر میں بڑی ہے شان جن کی
 لکھا ہے نام جن کا عرش پر بھی
 بلند، مشفوع، اور منقوش عمدہ
یہی لوح و قلم پر بھی ہے لکھا
 مقام ان کا جہاں میں ہے نرالا
عرب کے اور عجم کے جو ہیں آقا
 مقدس اور معطر جسم جن کا 
 ہے اطہر اور منور جسم جن کا
 مقام اونچا مقدس در ہے جن کا
حرم پاکیزہ بے شک گھر ہے جن کا
 جو ہیں شمس الضحیٰ بدرالدجیٰ بھی
جو ہیں صدر العلیٰ نور الھدیٰ بھی
 ہوئے کھف الوریٰ آقا ہمارے
 ہوئے سب سے جدا آقا ہمارے
 اندھیرے چھٹ گئے سارے کے سارے
 چراغ و رہنما بن کر وہ آئے
 حسیں اطوار ہیں سب سے نرالے
 شفاعت امتوں کی کرنے والے
 سخی ہیں اور کرم شیوہ ہے جن کا
 محافظ جن کا خود ہے حق تعالیٰ
 ہوئے جبریل بھی خادم انہی کے
سواری دی براق ان کو خدا نے
 کہ ہے دونوں جہاں پر راج جن کا
 سفر بیشک ہوا معراج جن کا
 انہی کی دے رہا ہوں میں دہائی
 بلند سدرہ تلک جن کی رسائی
 بلندی ان کی ہے ارفع و اعلیٰ
کہ وہ قوسین تھا مطلوب جن کا 
 وہی مطلوب اور مقصود جن کے
 سبھی مقصود ان کو مل گئے تھے
 رسولوں کے ہیں وہ سردار بے شک
 ختام الانبیاء سرکار بے شک
 شفاعت عاصیوں کی کرنے والے
 غمِ رہ گیر کا حل دینے والے
 جہانوں کے لئیے رحمت ہیں آقا
 سبھی عشاق کی راحت ہیں آقا
 وہ مشتاقانِ رب کے دل کا ملجا
 چراغِ سالکینِ حق ہیں آقا
 وہ اہلِ قرب کے ہیں رہنما بھی
 وہی فقرا و غربا کے ہیں حامی
 وہ مسکینوں کے ہیں غم خوار بے شک
 وہ جن و انس کے سردار بے شک
 نبی حرمین کے سرکارِ عالی
 امامت دونوں قبلوں پر انہی کی
 وسیلہ دو جہانوں کا ہوئے جو
 وہی قوسین کا جلوہ ہوئے جو
 محب ان کا ہوا اللہ تعالیٰ
جو رب ہے مشرقوں اور مغربوں کا
 گداگر ان کے در کے ہم سبھی ہیں
 وہ جو حسنین کے نانا نبی ہیں
 خدا کے فضل سے ہیں میرے آقا 
جو جن و انس کے بے شک ہیں مولیٰ
 ابولقاسم محمد مصطفٰے ہیں
 جو عبداللہ کے گھر کی ضیا ہیں
 خدا کے نور سے جو ہیں منور
 اے اہلِ شوق ان کی ذات ہی پر 
 اور اہلبیت پر اصحاب پر بھی
 بہت بھیجو درودوں کی سلامی 
 جسے محبوب خود تو نے بنایا
 سلام ان پر درود ان پر خدایا

نظم (25 جولائی 2019)
 یہ زمیں آسماں سارے ہیں نظارے تیرے
 یہ گلستان یہ صحرا ہیں اشارے تیرے
 موجِ دریا بھی تِرا اس کے کنارے تیرے
 چاند سورج بھی تِرے سارے ستارے 
مجھ کو ہر شے میں تِرا نور نظر آیا 
چشمِ موسیٰ سے وہی طور نظر آیا ہے
میں نے پاکیزہ ہواؤں میں تجھے دیکھا ہے
 میں نے بارش کی پھواروں میں تجھے دیکھا ہے 
 میں نے گلشن کے نظاروں میں تجھے دیکھا ہے
میں نے رنگین بہاروں میں تجھے دیکھا ہے
 کون کہتا کہ بندوں سے بہت دور ہے تو
 ہاں مگر عقل کے اندھوں سے بہت دور ہے تو
تو قلندر کی صدا جاذبِ مجذوب تو ہی 
صوفیوں سالکوں درویشوں کا مطلوب تو ہی
 قطب و ابدال کا اور غوث کا محبوب تو ہی


************
محبوب خان اصغر، معتمد،غالب اکیڈمی، حیدرآباد 


7 comments:

  1. الحمد للہِ رب العٰلمین و الصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین ﷺ
    یہ بات روزِ روشن کی طرح تابندہ ہےکہ کسی بھی شخص کے قابل ہونے میں اس کے اطراف و اکناف موجود اشخاص کا اس میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ پرورش، تعلیم اور صحبت دینے والے اگر نیک وہ قابل ہوں تو پروش پانے والا فرزند، طالب علم اور مصاحب میں بھی نیکوکار کردار و قابلیت نمایاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر رضی شطاری نے اپنے انٹرویو میں جو باتیں کہی ہیں اس کا میں عینی شاہد ہوں۔ بچپن ہی سے ادب سے ایسا ذوق و شوق کم ہی لوگوں میں دیکھا گیا ہے۔ بڑے ہونے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے تک تو یہ ننہا سا پودا ایسا وسیع و عریض درخت بن گیا ہے کہ کئی طالب پرند کی نہ صرف پناہ گاہ بن گیا ہے بلکہ رہبر و رہنما بھی ہو گیا ہے۔ میں جناب مجید عارف صاحب، جناب محبوب خان اصغر صاحب اور اس ویب سائٹ کے تمام معاونین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہ انٹر ویو قارئین کے لئے شائع فرمایا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ پروفیسر ذکی شطاری صاحب
      جزاک اللہ خیرا
      ویب سائٹ کی پسندیدگی کے لئے مشکور ہوں

      Delete
  2. ماشاءاللہ سبحان الله

    جناب محبوب خان صاحب اصغر نے بہت اچھا انٹرویو لیا۔

    جناب ڈاکٹر رضی شطاری صاحب نے مفصل انداز میں انٹرویو دیا۔


    بحر حال اللہ تعالیٰ دونوں کو صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے۔

    آمیـــــــــــــــــن
    محمد شبیر علی خان اسمارٹؔ، حیدرآباد

    ReplyDelete
  3. شکریہ
    محترم شبیر علی اسمارٹ صاحب
    جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete
  4. سبحان اللہ!!
    ماشاءاللہ!!
    جنابِ محبوب خان اصغر صاحب نے اپنے منفرد انداز میں نہایت ہی عمدہ اور خصوصی سوالات کے ذریعے جو انٹرویو لیا ہے واقعی قابلِ ستائش ہے، جس کے ذریعے سے ہمیں استاد محترم جناب ڈاکٹر رضی شطاری صاحب کے مکمل تعارف سے آگاہی ہوئی، اور آپکی قابلیت اور کی خدمات و مصروفیات کا بھی علم ہوا، واقعی ناقابلِ فراموش ہیں آپکی ادبی خدمات و سرگرمیاں، آپکے اس جزبے کو لاکھوں سلام، اور جناب محبوب خان اصغر صاحب کا بھی بہت مشکور ہوں کہ وہ بھی اکثر و بیشتر ہر لحاظ سے اُردو کی خدمت میں حاضر و مصروف رہتے ہیں۔
    اللہ آپ دونوں حضرات کو صحتمند و سلامت رکھے۔
    آمین یارب العالمین

    *✍️ محمد نعیم اختر*
    *🥀سعودی عرب*🥀

    ReplyDelete
  5. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
    ماشاءاللہ سبحان اللہ
    استادِ محترم ڈاکٹر رضی شطاری صاحب
    اور محترم محبوب خان اصغر صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں کہ سوالات اور جوابات پر مشتمل یہ انٹرویو سے مجھے بہت کچھ معلومات حاصل ہوئی.
    جزاک اللہ
    مولی سے دعا ہے کہ استادِ محترم اور خان صاحب کی عمر میں ترقی ہو اور یونہی اردو زبان کی خدمت کرتے رہیں
    آمین
    سید یونس
    نظام آباد

    ReplyDelete