ڈاکٹر مُعید جاویدؔ: معلم محقق ،مدقق و شاعر - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

20.3.20

ڈاکٹر مُعید جاویدؔ: معلم محقق ،مدقق و شاعر


ڈاکٹر مُعید جاویدؔ: معلم محقق ،مدقق و شاعر


 ڈاکٹر مُعید جاویدؔاُس تاریخ ساز، عظیم الشان وفقید المثال جامعہ عثمانیہ کے شعبہئ اردو سے وابستہ ہیں جس سے کبھی ماضی میں پروفیسر وحیدالدین سلیم، پروفیسر سید سجاد، بابائے اردو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ، پروفیسر مسعود حسین خان، رفیعہ سلطانہ، عبدالقادرسروری، غلام عمر خان، زینت ساجدہ، سیدہ جعفر، پروفیسر یوسف، مغنی تبسم اور اشرف رفیع جیسی مایہ ناز، ہستیوں کا تعلق رہا ہے۔ ڈاکٹر مُعید جاویدؔ جہاں ایک معلم ومدرس، محقق ومدقق اور مفکر و دانشور ہیں وہیں وہ ایک خوش فکر اور نغز گو شاعر بھی ہیں جنہوں نے حیدرآباد دکن کے نامور شاعر ومعروف استاذ سخن حضرت علی احمد جلیلیؔ سے برسوں استفادہ کیا ہے اور اپنے کلام پر ان سے اصلاح لی ہے جس کی وجہ سے ان کے کلام کے جوہر نمایاں نظر آتے ہیں۔ یوں تو ڈاکٹر مُعید جاویدؔ کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہُوا مگر ایم۔اے (اردو) کے مراحل سے پہلے ہی ”موزونیت“ کی دولت ان کے ہاتھ آئی جس کی وجہہ سے وہ شاہ راہِ سخن پر نہ صرف گام زن ہوئے بلکہ ان کے ذوق وشوق کی بدولت یہ سلسلہ آگے بڑھا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ ان کے کلام سے اعتباری شان اور جلالتِ سخن ظاہر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مُعید جاویدؔ نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تو نہیں کی البتہ ان کے پہلے شعری مجموعہ ”دل کہہ رہا ہے“کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ غزل ان کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے جس میں وہ اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ غزل گوئی کے باب میں ان کا ایک وصفِ خاص یہ ہے کہ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کہنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ جب کوئی غزل ہوتی ہے تو وہ مستقل اس کے اشعار پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں اور پھر خود ہی مصرعوں میں تبدیلی کرتے ہیں اس طرح صیقل گری کرتے کرتے وہ اپنے سخن کو جِلا بخشتے ہیں۔یہی وہ خوبی ہے جو ایک فن کار کے فن کو معیار و وقار بخشتی ہے۔ غزل کے علاوہ ڈاکٹر معید جاویدؔ نے حمدیں، نعتیں، نظمیں مراثی، قطعات، سہرے نیز افسانے اور افسانچے تحریر کئے ہیں۔ عصرِ حاضر میں شعراء کی کثرت ”عیاں راچہ بیاں“ کے مصداق ہے مگر خال خال ہی ایسے شعراء ہیں جن کے کلام میں جدید لب ولہجہ پایا جاتا ہے یا جن کی فکر میں گہرائی وگیرائی کے ساتھ ساتھ ندرت وجدت اور ایک خاص بات ہوتی ہے ڈاکٹر مُعید جاویدؔ ایسے ہی شاعر ہیں جن کا لب ولہجہ متاثر کن لگتا ہے۔تجربات کی وسعت، کہنہ مشقی اوراساتذہ کے فیضانِ صحبت کے نتیجہ میں انہوں نے حیدرآباد دکن کے اہم شعراء میں اپنی شاعرانہ شناخت کو استحکام بخشا ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ان کے معیاری فکر وفن کی غمازی کرتے ہیں ؎
 تجھے یہ تاج محل شہ جہاں مبارک ہو
 مرا یہ سامنے کچا مکان رہنے دے
 کم نہیں ہیں عذاب دُنیا کے
آخرت کا حساب رہنے دے
 دُنیا ترے حصوں کی خاطر خُدا گواہ
 میں نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا
 موجودہ دور میں اخلاقی اقدار کا دور دور تک پتہ نہیں ملتا۔ آج ہر ایک کو اپنے مفادات عزیز ہوگئے ہیں۔ مادی اعتبار سے دنیا جتنی ترقی کی سمت گام زن ہے اسی تیزی سے روحانی اعتبار سے تنزلی اور انحطاط کی سمت جاتی نظر آتی ہے۔ اس پسِ منظر میں ڈاکٹر مُعید جاویدؔ کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں ؎
 کیسے رکھوں خود پر قابو درد بھرے حالات میں اب
 غم کا کاغذ بھیگ رہا ہے اشکوں کی برسات میں اب
 ائے شہرِ ہوس کیسے تری پیاس بجھائیں 
 زخمی ہیں بدن، روح کے بھی پڑگئے لالے
 نفرتوں کی ضرب کے زیرِ اثر
 پیار پھر بیمار ہوکر رہ گیا
 جاویدؔ سب کو اپنے مفادات ہیں عزیز
 دانشورانہ کوئی قیادت نہیں رہی
 موجودہ کرب زدہ حالات اور روح فرسا عصری منظر نامہ کے پیشِ نظر جاویدؔ صاحب یوں فریاد کرتے ہیں ؎ 
پیار، الفت کی حکمرانی ہو
 ایسا کوئی نصاب دے جاؤ
جس کو پی کر سنبھل سکیں مے کش
 ایسی کوئی شراب دے جاؤ

 ڈاکٹر مُعید جاویدؔ کا رنگِ تغزّل ملاحظہ ہو ؎ 
جُھک گئی ہے نظر سے مِل کے نظر 
 دِل سے دِل کا کلام باقی ہے
 سادگی میں اُس کی دِلکشی
ہر نگاہ دنگ ہوگئی
 بے چین تو اگر ہے مجھے کب قرار ہے
 شاید اسی کا نام محبت ہے، پیار ہے
 اس کو بھولے ہوئے جاویدؔ زمانہ گزرا
 اس کی تصویر مرے سامنے لایا نہ کرو
 مجھ کو میری چاہت کا صلہ کیوں نہیں دیتے
 اک درد کے مارے کو دوا کیوں نہیں دیتے

 ڈاکٹر مُعید جاویدؔ نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اپنے ماحول پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ یہ الفاظ اوروں کے حق میں رسماً سہی مگر معید جاویدؔ کے حق میں بجا طور پر درست لگتے ہیں۔ وہ جب کسی واقعہ سے کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں تو وہ ان کی عاقبت شناس نظروں اور فکرِ رسائی کی چغلی کھاتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے جن سے اُن کی دیدہ وری اور کامل باخبری کا اظہار ہوتا ہے ؎
 کیا کیا تونے زندگی پاکر
 زندگی نے سوال کر ڈالا
 زندگی کی سیاہ راہوں میں 
 شمع جلتی رہی مُرادوں کی 
 پھنس نہ جائے کہیں پرندے تو
 وہ شکاری کی چال رکھتا ہے
 ایسے نہ حقارت کی نظر نورِ نظر کر
 چھوٹا سا سہی گھر یہ مگر ہے کہ نہیں ہے

 بلاشبہ ڈاکٹر مُعید جاویدؔ ایک کہنہ مشق اور خوش فکر شاعر ہیں جنہوں نے حیدرآباد دکن کے اہم شعراء میں اپنا ایک ممتاز مقام بنایا ہے۔ ان کا کلام آئے دن مختلف اخبارات ورسائل کی زینت بنتا رہتا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ سے بھی ان کا کلام متعدد مرتبہ نشر ہوچکا ہے۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ”دل کہہ رہا ہے“اچھی اور معیاری شاعری کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر مُعید جاویدؔ اور راقم الحروف کے اشتراک سے ایک اہم کتاب ”معائب ِ سخن و ہدایت نامہئ شاعری“ کی اشاعت بھی عمل میں آچکی ہے۔2019 ء میں آپ کا ایک اور مجموعہ کلام "سچ کہنا بالآخر" شائع ہوکر ادبی حلقوں میں پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔ غرض ڈاکٹر مُعید جاویدؔ نے اپنے لکھنے پڑھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے اور شاعری کے گلستان کو اپنے خونِ دل سے سینچ کر کامیابی حاصل کی ہے جو خوش آئند اور قابل قدر بات ہے۔ 

٭……٭……٭ 

 مضمون نگار: واحدؔ نظام آبادی، ایم اے،ایم فل، ٹرانسلیشن اسٹڈیز

No comments:

Post a Comment