ممتازمزاحیہ شاعر: اقبال شانہ
(دیوارِ قہقہہ کی شاعری کے حوالہ سے)
عصر حاضر میں انسان کو مختلف مسائل درپیش ہیں۔آج انسان کے شب و روز جس انداز سے بسر ہورہے ہیں،اس کے نتیجہ میں طبیعت میں انقباض‘ تکدر‘ چڑچڑاپن‘ تھکن اور ذہنی بوجھ کا شکار ہونا لازمی بات ہے‘ ایسے میں اگر کوئی مزاح کی شیرینی سے بھرپور اور ظرافت سے معمورکلام کا شربت اسے پلادیتا ہے تو وہ اس کے لئے یقیناً روح افزا ہے۔عصرِ رواں میں انسان اپنی معاشرتی سرگرمیوں اور مختلف رشتوں کی ناہمواریوں کے باعث جس طرح سے مجبور اور تھکن سے چور ہوجاتا ہے‘ وہ ظاہر ہے۔ اس کے لئے طنز و مزاح اور ظرافت کی گولی نہ صرف مفید و معاون بلکہ ممدحیات ہوتی ہے اور اگر یہ خدمت صدقِ دل سے انجام دی جائے تو بہ ہر طور عبادت سے کم نہیں۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ محترم اقبال شانہؔ کا شمار ایسے ہی مخلصین و عابدین میں ہوتا ہے جن کو خدائے لم یزل و لایزال نے غیر معمولی حس مزاح اور ظرافت ِطبع عطا فرمائی ہے‘ جس کے ذریعہ وہ محفلوں کو زعفران زار بنادینے کا ہنر اور زندگی کو بہار کی صورت میں لانے کا گرجانتے ہیں اور وہ جس مقام پر جاتے ہیں،وہاں خوشی کی لہر دوڑادیتے ہیں۔ فن جب فنکار کی شخصیت میں تحلیل ہوکر اس کی شخصیت کا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے تو پھر ایسے فن پارہ کا وجود و ظہور ہوتا ہے جس کا لطف دوبالا اور دو آتشہ ہوجاتا ہے اور اس میں اعتباریت پیدا ہوجاتی ہے۔ ”دیوارِ قہقہہ“ اس کا ایک مظہر ہے،جس میں اقبال شانہؔ کی پرمزاح شخصیت کا جلوہ نظر آتا ہے کہ وہ کس انداز سے طنز و مزاح اور تبسم کے گل کھلاتے ہیں۔”دیوارِ قہقہہ“ میں انہوں نے جس انداز سے گل افشانیاں کی ہیں اور جس طرح سخن وری کی عطر بیزی کی ہے‘ اس سے مسرت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور یہ اچھی شاعری کی خصوصیت ہے‘جو ان کے یہاں پائی جاتی ہے.
اقبال شانہؔ کی مزاحیہ شاعری کے پہلے انتخاب موسوم بہ بیاض فکر نے 1962 ء میں اشاعت کا شرف پاکر ان کی شاعرانہ شناخت کو مستحکم کردیا تھا‘ پھر 1996 ء میں ”شانہ بہ شانہ“ کی اشاعت عمل میں آئی۔ بعد ازاں ”شانہ ڈاٹ کام“ 2009 ء میں منصہ شہود پر آکر داد و تحسین کا مستحق قرار پایا اور اب بحمد اللہ ”دیوارِ قہقہہ“ قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔علاوہ ازیں عرصہئ دراز سے ان کا کلام رابطہ (کراچی) شگوفہ (حیدرآباد) اور گونج‘ (نظام آباد‘ آندھراپردیش) جیسے رسائل وجرائد اور مؤقر اخبارات میں بھی شائع ہوتا رہا ہے۔اور ان کے لکھے مزاحیہ مضامین کو بھی ترتیب دیا جائے تو بآسانی ایک مجموعہ شائع ہوسکتا ہے‘ اس طرح اردو کے مزاحیہ ادب میں محترم اقبال شانہؔ کی برسہا برس کی کوششیں واقعی لائق تحسین و آفریں اور قابل قدر نظر آتی ہیں۔
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
ائے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
ذوقؔ دہلوی نے مذکورالصدر شعر میں کائنات میں موجود جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے‘وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ اس دنیائے سود و زیاں میں تقسیم‘ تبدیل‘ اختلاف اور تنوع کی فراوانی جابجا نظر آتی ہے۔ کل کائنات میں قطع نظر از مستثنیات یہی اصول کار فرما ہے اور اس نکتہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانی طبیعت بھی دراصل ہرچیز میں تنوع ہی کو تقریباً پسند کرتی ہے اور تنوع کا خاصہئ لازمی تلذذ ہوتا ہے جس سے طبائع کی تسکین ہوتی ہے چنانچہ کسی مشاعرے میں اگر کوئی شاعر خود اکیلا ہی سامعین کے روبرو اپنا کلام سنانے کی ناکام تمنا کرتا ہے‘ گو یہ خیال خام ہے‘مگر اس صورت میں اس کی اور مشاعرے کی کامیابی کس حد تک یقینی ہے‘ یہ ظاہر ہے‘ ہاں مختلف شعراء اگر اپنا کلام سناتے ہیں تو سامعین نہ صرف بصد شوق سنتے اور پسند کرتے ہیں بلکہ اس سے غیر معمولی لطف اٹھاتے ہیں اور متاثر و مسحور ہوتے ہیں۔ اس نکتہ کی روشنی میں اگر ہم اقبال شانہؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کا کلام ہمیں فارسی کے ایک شعر ؎
زفرق تابہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست
کے مصداق نظر آتا ہے‘یعنی ازاول تا آخر ہر جگہ قابل دید‘ لائق مطالعہ اور لطف افزا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں موجود گلہائے رنگ رنگ دراصل مشام جاں کو نہایت معطر کرنے والے ہیں‘ اقبال شانہؔ کی مزاحیہ شاعری میں جس قدر مضامین کا تنوع ملتا ہے‘عصر حاضر میں شاید ہی وہ کسی اور مزاحیہ شاعر کے یہاں ملتا ہو‘یہ اور بات کہ شاہدؔ عدیلی کے کلام کی انفرادیت‘ جدت اور ندرت بھی داد وصول کئے بغیر چپ نہیں رہتی۔ غرض انھیں گلہائے رنگ رنگ کی بدولت اقبال شانہؔ کے مزاحیہ چمن کی زینت نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ روز افزوں ہے۔مضامین کے اعتبار سے ان کے یہاں بہت وسعت ہے اور ایسی وسعت ہے جو مستقبل میں ان کے نہ صرف خوش آئند مستقبل کی غمازی کرتی ہے‘بلکہ اس کے دوررس امکانات کی نوید سناتی ہے‘جس کا اعتراف نہ صرف ناگزیر ہے‘بلکہ یہ ادبی دیانت داری کا تقاضابھی ہے۔ ان کی شاعری عصر رواں کی آواز ہے۔وقت کی پکار ہے۔جس میں ان کی فکر زمانے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ان کے پاس ایسے ایسے عناوین پر غزلیں ملتی ہیں‘جن پر لکھنا بآسانی اوروں کو سوجھتا بھی نہیں‘مثلاً ایکس رے‘ ہوائی اڈے پر‘ مشین‘ مریخ پر‘ ای میل‘ فیس بک‘ انجکشن‘ بم‘ جراثیم اور انگلش میں وغیرہ ایسے جدید اور عصریات سے معمور و ہم آہنگ موضوعات پر ان کے پاس مزاحیہ غزلیں ہیں‘جن سے ان کی بیدار مغزی‘ زمانہ شناسی‘ عصری ہم آہنگی‘ اختراعِ طبع اور غیرمعمولی حس مزاح کا اندازہ ہوتا ہے۔ایسے جدید موضوعات پر مزاحیہ شاعری کے نئے نئے پہلو نکال کر انہوں نے ثابت کردیا کہ واقعی ولیؔ دکنی کے بقول مضمونِ تازہ کا راستہ بند نہیں ہے بلکہ یہ تاقیام قیامت ہر فنکار اور جہد کار کے لئے کھلا ہوا ہے مگر اس کے لئے ذاتی قابلیت اور ٹھوس صلاحیت کے ساتھ ساتھ عصریات اور جدید مسائل پر گہری نظر درکار ہے۔
سطورِ بالامیں محترم اقبال شانہؔ کی جس بیدار مغزی‘ بالغ نظری اور ذہنی دوررسی کا میں نے ذکر کیا ہے‘ یہاں ان کے اس اعلیٰ تخیل کی چند مثالیں دے کر آگے بڑھتا ہوں‘تاکہ میری بات کی تائید و توثیق ہوجائے‘ انہوں نے کہا ہے ؎
رفتہ رفتہ دیکھ لینا ایک دن
یار بھی آجائے گا ای میل سے
ہم نے شانہؔ یاد جب اس کو کیا
آگئی وہ دلربا ای میل سے
پہلی بات یہ ہے کہ انہوں نے ای میل جیسے جدید موضوع پر یہ غزل کہی ہے‘ پھر اس میں مزاحیہ شاعری کے کامیاب پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے اور اس میں مستقبل کے دوررس امکانات کی بشارت ہے اور اس مصرع ”یار بھی آجائے گا ای میل سے“ میں بیان کردہ مضمون کی بات گو مستبعد‘ محال اور ناممکن ہے‘مگر یہ جس عصریاتی ترقی کی طرف اشارہ کررہی ہے اور جن دوررس امکانات کی نوید سنارہی ہے‘ وہ واقعی قابل قدر اور لائق رشک ہے۔ ان کا ایک شعر یوں بھی ہے ؎
خوشبوؤں سے مہک اٹھا کمرہ
فون پر اس کی بج اٹھی آواز
اس شعر میں بیان کردہ مضمون محبوب پر فدائیت کا مظہر ہے۔اقبال شانہؔ کی فکر رسا کی داد دیجئے کہ انہوں نے محض اپنے محبوب کے فون کرنے کی آواز ہی سے کمرہ کے مہک اٹھنے کی بات کی۔یہ ندرت‘ جدت اور فکری دوررسی کم کم ہی کسی شاعر کے حصے میں آتی ہے۔
محبوب کی آمد پر شعراء نے مختلف انداز سے اپنی فکر شعری کے گل کھلائے ہیں اور بڑے اچھے اچھے شعر کہے ہیں جیسے ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میرؔ
وہ آئیں گھر کو ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو‘ کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
غالبؔ
نادم ہوں واقعی کرمِ بے حساب سے
خوش آمدید آپ کہاں میرا گھر کہاں
ظفر ؔ
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
تم آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آی
ا
جوشؔ
وہ جتنی دیر رہے‘گھر تھا میرا گھر کی طرح
گئے تو گھر وہی لگتا ہے اک کھنڈر کی طرح
نظیر علی عدیلؔ
وہ آگئے تو کسی شئے میں کچھ ضیا نہ لگے
پھر ان کے سامنے کوئی دیا دیا نہ لگے
معین راہیؔ
مگر اقبال شانہؔ نے اپنے محبوب کے قرب و وجود کے مضمون کو کس سلیقے اور قرینے سے باندھا ہے اور سہل ممتنع انداز میں اپنی خوش اسلوبی‘ نکتہ سنجی اور سخن طرازی کا جادو کچھ اس انداز سے جگایا ہے کہ پڑھ کر بے اختیار داد و تحسین سے نوازنا ہی پڑتا ہے‘ ملاحظہ ہو ؎
تم ہو تو یوں لگتا ہے
دنیا میرے کمرے میں
کمرے میں دنیا کے آجانے کی بات ”گا گر میں ساگر اور دریا بہ کوزہ“کی مصداق ہے‘جو ان کی بالغ نظری‘ شدت احساس‘ بیدار مغزی اور ذہنی دوررسی کا پتہ دیتی ہے اور جو ان کی کہنہ مشقی اور شعری پختگی پر دلالت کرتی ہے۔
دراصل اقبال شانہؔ طنز و مزاح کے ایک کامیاب شاعر اور فنکار شخصیت کا نام ہے‘ جواردو کے ساتھ ساتھ عربی‘ تلگو‘ ہندی اور انگریزی زبانوں پردسترس رکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے منہ کا مزہ بدلنے کے لئے گو کم مگر عربی میں بھی شاعری کی ہے اور برائے نام سہی زبانِ عربی میں بھی چند غزلیں کہہ کر اپنی طبع موزوں کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مزاحیہ شاعری میں بلا تکلف انگریزی الفاظ کا استعمال نہایت چست انداز میں بڑی خوبصورتی سے کیا ہے‘ جس کی وجہ سے ان کی شاعری آج کے زمانے کی شاعری ہوگئی ہے‘ جیسے ؎
ای میل پر مسلسل ہم رابطہ بس اپنا
فی میل سے رکھیں گے اکیسویں صدی
میں
ہاوس فل ہوگئی تری محفل
ہم کو چھوٹا سا کارنر نہ ملا
اس نوع کی مثالیں ان کے کلام میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔ انہوں نے سہ لسانی غزلیں بھی کہی ہیں جو زبان دانی میں ان کی مہارت کا ثبوت دیتی ہیں۔
اقبال شانہؔ کے ذہن کے صندوق میں تشبیہات و استعارات کی فراوانی بھی ہے‘ گھسی پٹی تشبیہوں کا استعمال کوئی کمال نہیں ہے۔مزاحیہ اعتبار سے تشبیہات کا استعمال کرنے کے لئے جو صلاحیت درکار ہوتی ہے وہ ان میں پائی جاتی ہے‘ جیسے ؎
لدا پھدا ہوا ساماں سے آدمی یارو
کبھی ہم ان کو‘ کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
غالبؔ
نادم ہوں واقعی کرمِ بے حساب سے
خوش آمدید آپ کہاں میرا گھر کہاں
ظفر ؔ
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
تم آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا
جوشؔ
وہ جتنی دیر رہے‘گھر تھا میرا گھر کی طرح
گئے تو گھر وہی لگتا ہے اک کھنڈر کی طرح
نظیر علی عدیلؔ
وہ آگئے تو کسی شئے میں کچھ ضیا نہ لگے
پھر ان کے سامنے کوئی دیا دیا نہ لگے
معین راہیؔ
مگر اقبال شانہؔ نے اپنے محبوب کے قرب و وجود کے مضمون کو کس سلیقے اور قرینے سے باندھا ہے اور سہل ممتنع انداز میں اپنی خوش اسلوبی‘ نکتہ سنجی اور سخن طرازی کا جادو کچھ اس انداز سے جگایا ہے کہ پڑھ کر بے اختیار داد و تحسین سے نوازنا ہی پڑتا ہے‘ ملاحظہ ہو ؎
تم ہو تو یوں لگتا ہے
دنیا میرے کمرے میں
کمرے میں دنیا کے آجانے کی بات ”گا گر میں ساگر اور دریا بہ کوزہ“کی مصداق ہے‘جو ان کی بالغ نظری‘ شدت احساس‘ بیدار مغزی اور ذہنی دوررسی کا پتہ دیتی ہے اور جو ان کی کہنہ مشقی اور شعری پختگی پر دلالت کرتی ہے۔
دراصل اقبال شانہؔ طنز و مزاح کے ایک کامیاب شاعر اور فنکار شخصیت کا نام ہے‘ جواردو کے ساتھ ساتھ عربی‘ تلگو‘ ہندی اور انگریزی زبانوں پردسترس رکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے منہ کا مزہ بدلنے کے لئے گو کم مگر عربی میں بھی شاعری کی ہے اور برائے نام سہی زبانِ عربی میں بھی چند غزلیں کہہ کر اپنی طبع موزوں کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مزاحیہ شاعری میں بلا تکلف انگریزی الفاظ کا استعمال نہایت چست انداز میں بڑی خوبصورتی سے کیا ہے‘ جس کی وجہ سے ان کی شاعری آج کے زمانے کی شاعری ہوگئی ہے‘ جیسے ؎
ای میل پر مسلسل ہم رابطہ بس اپنا
فی میل سے رکھیں گے اکیسویں صدی میں
ہاوس فل ہوگئی تری محفل
ہم کو چھوٹا سا کارنر نہ ملا
اس نوع کی مثالیں ان کے کلام میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔ انہوں نے سہ لسانی غزلیں بھی کہی ہیں جو زبان دانی میں ان کی مہارت کا ثبوت دیتی ہیں۔
اقبال شانہؔ کے ذہن کے صندوق میں تشبیہات و استعارات کی فراوانی بھی ہے‘ گھسی پٹی تشبیہوں کا استعمال کوئی کمال نہیں ہے۔مزاحیہ اعتبار سے تشبیہات کا استعمال کرنے کے لئے جو صلاحیت درکار ہوتی ہے وہ ان میں پائی جاتی ہے‘ جیسے ؎
لدا پھدا ہوا ساماں سے آدمی یارو
دکھائی دیتا ہے جوکر ہوائی اڈے پر
سامنے موصوف کے ادنیٰ سے ہم کٹ پیس ہیں
اور ظرافت کا مکمل تھان ہیں عابد معز
دل مرا پنجہ میں ان کے پھنس گیا ہے اس طرح
ہاتھ میں بچے کے جیسے جھنجھنا ہے دوستو
گھنٹیاں جیسے کانوں میں بجنے لگیں
جانِ جاناں تمہاری ہنسی مختلف
انہوں نے اپنی شاعری میں بڑی خوبصورتی سے محاورات کا استعمال بھی کیا ہے اور روزمرہ کا خیال رکھا ہے‘جس سے شعر کی جمالیاتی فضا بڑھ گئی ہے‘ جیسے ؎
ہوگئے چودہ طبق روشن مرے
یار کا دیدار بھی کیا چیز ہے
رقص کرتا ہے سینے میں دل جھوم کر
تیرے دیدار کی ہے ہنسی مختلف
کوئی امید سے ہے بعد مدت
نیا اک گل کھلا ہے فیس بک پر
مزاح اور طنز گویا جسم و جاں ہیں۔اقبال شانہؔ نے مزاح کی شگفتگی کے ساتھ ساتھ طنز کی تیزی سے بھی کام لیا ہے اور نہایت سلیقے سے معاشرہ کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے‘جس کی وجہ سے ان کی فنکاری میں اعتبار و وقار پیدا ہوگیا ہے‘ جیسے ان کی ماحولیاتی غزل کا یہ شعر ؎
مجھے سرسبز جنگل کاٹنا ہے
مری چھوٹی سی لکڑی کی دکاں ہے
اسی طرح دیگر اشعار ؎
دل میں تھوڑی سی وفا آئی نظر
میں نے دیکھا جانور کا ایکس رے
بے حیائی بڑھ گئی ہے آج کل چاروں طرف
ہے ترقی پر بہت انسان ہیپی نیو ایئر
تنگ ہوتی جارہی ہے یہ زمیں
سانس تو لے پائیں گے مریخ پر
اقبال شانہؔ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مسلسل خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہر دم مزاحیہ شاعری میں کچھ نیا گل کھلانے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور یہی وصف انہیں کامیابی سے ہم کنار کرتا جارہا ہے۔ابھی وہ مطمئن نہیں ہیں‘بلکہ آسمان ِ شاعری پر اپنی کمند ڈال کر ہی شاید کچھ سکون لے پائیں گے اور انہیں اپنی بے بضاعتی اورکم مائیگی کا احساس بھی ہوتا ہے‘ تبھی تو انہوں نے کہا ہے ؎
ہیں بہت اچھے اچھے سے شاعر میاں
اورشانہؔ کہاں کرہئ ارض پر
جانتا ہوں کہ مقدمہ اور تعارف میں اختصار مستحسن ہے مگر اقبال شانہؔ کی شاعری کے چند بنیادی اوصاف و عناصر کی نشاندہی ناگزیر نظر آرہی تھی اسی لئے قدرے تفصیل سے کام لیا گیا ہے‘ جس کے لئے قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔
اقبال شانہؔ کی شاعری کے اس مختصر سے تجزیہ سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے مزاح میں جن مضامین کو پیش کیا ہے اور ا س میں نئے پہلوؤں کو جو تلاش کیا ہے‘بلا شبہ یہ اردو کی مزاحیہ شاعری میں ایک گراں قدر اضافہ ہے اور ”دیوارِ قہقہہ“ اردو مزاحیہ شاعری کی ایک معتبر آواز ہے جو مستقبل کے خوش آئند امکانات کی نوید سناتی ہے۔میں اس موقع پر نہ صرف اس فنکار کی ستائش کرتا ہوں بلکہ ”دیوارِ قہقہہ“ کی اشاعت پر اس یقین کے ساتھ مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کا یہ شعری مجموعہ ادبی دنیا میں ”فال نیک“ ثابت ہوگا‘ اور مزاحیہ شعراء کے لئے اس سے جہاں مضامین کی وسعت و عمومیت کی راہیں ہموار ہوں گی‘وہیں عام اردو داں طبقہ کے لئے بھی ضیافت طبع کا سامان فراہم ہوگا اور اہل ادب اس کہنہ مشق مزاحیہ شاعر کی ”دیوار قہقہہ“ کے سائے میں بیٹھ کر نہ صرف خوب قہقہے لگائیں گے بلکہ اس کے تصور و تذکرے ہی سے ان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر جائے گی۔
**************
مضمون نگار: واحدؔ نظام آبادی، ایم اے،ایم فل ٹرانسلیشن اسٹڈیز
No comments:
Post a Comment