نظام آباد کے صدیقی برادران: ہر آنکھ پُرنم ہے تمہارے لئے - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

9.1.20

نظام آباد کے صدیقی برادران: ہر آنکھ پُرنم ہے تمہارے لئے


نظام آباد کے صدیقی برادران: ہر آنکھ پرنم ہے تمہارے لئے


 یوں تو صبح و شام موت و زندگی کی آنکھ مچولی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ جس نے زندگی کا لطف اٹھایا ہے وہ موت کا ذائقہ ضرور چکھے گا۔مگر اجل کے مسافروں کے انداز بھی جداجداہوتے ہیں۔بعض جانے والے اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑتے۔اوربہت سے آخری سفر پر جانے والے اپنی یادوں اپنی جدجہد کی ایک طویل داستان چھوڑجاتے ہیں۔ان کی موت پر جب لاکھوں ہاتھ دعاوں کے لئے خودبخود اٹھ جاتے ہیں تو خودزندگی بھی ان کی موت پر رشک کرنے لگتی ہے۔کیوں کہ ایسے لوگوں کی زندگی دوسروں کی زندگی بدلنے اور ان کی آخرت سنوارنے کے لئے ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ 

 صدیقی برادران کا قافلہ عارضی منزل پر پہنچنے والے قافلہ سے یقینا بچھڑگیا..... لیکن قافلہ حق کے ساتھیوں کے درمیان اپنے آپ کو پاکر وہ بہت مسرور ہوئے ہونگے۔ ماں اور بہن بھی اپنے افراد خاندان کے سمیت اس ہستی سے ملنے چلی گئیں جن کی اطاعت انہوں نے عمر بھر کی۔ جن لوگوں کی زندگی کا مقصد حبِ الہی،رضائے الہی ،ذکر ِالہی اور خشیت ِالہی ہو ،وہ رب کریم کے بلاوے پر لبیک ہی تو کہتے ہیں....ربِ کریم کی خاص عنایات کے بدولت یہ قافلہ عالم ارواح میں ابدی سکون کے معنیٰ جان چکا ہوگا۔.اللہ سبحان تعالیٰ نے کہاہوگا فرشتو! ان ارواح مطمئینہ کو نہ چھیڑنا..... بڑے تھک کر آئے ہیں....بس انہیں آرام کرنے دو.....یہ مجھ پر راضی تھے میں ان پر راضی ہوں......

 دل میں ایک عجیب سی ہوک اٹھتی ہے ،سناٹے سے اترنے لگتے ہیں۔یقین نہیں آتا ہے کہ کوئی اتنی جلدی بھی دنیا سے چلا جاتا ہے۔24 فروری 2008 ء کی صبح 7 بجے میرے دوست تقی الدین نے موبائل فون پرانڈیاسے یہ روح فرساخبر سنائی کہ عبدالمعیدصدیقی اور عبدالمعیدصدیقی سابق میونسپل کارپوریٹر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔کار کے ایک حادثے میں وہ اپنی والدہ محترمہ بہن اور اور عبدالحمید صدیقی کی تین لڑکوں سمیت خالق حقیقی سے جاملے یہ لوگ اپنے بھانجے کی شادی کے سلسلے میں کچھ خریداری کرنے کے بعد بذریعہ کارحیدرآباد سے نظام آباد واپس ہو رہے تھے کہ نظام آباد کے قریب ان کی کار ایک درخت سے ٹکرا گئی اور اس گھر کے سات افراد جان بحق ہوگئے۔ 
صدیقی برادراں کا تعلق نظام آباد کے چھوٹے سے قصبے باباپورسے ہے ۔ان کے والدمحترم علی صدیقی صاحب مرحوم بھی جماعت اسلامی کے رکن تھے ان کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ممتاز عالم دین مولانا مودودی اس قصبے میں تشریف لائے تھے ۔ جماعت اسلامی کے ابتدائی ایام سے ہی یہاں سے کئی جیالے دین کی خدمت کے لیے اٹھے تھے یہاں سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں نے دین اور ملت کی خدمت کو اپنا مقصدِحیات بنایاہے جن میں قابل ذکر، ممتازشاعرمعصو م عباسی صاحب مرحوم (جنہوں نے ریاض سعودی عرب میں زائد از بیس سال درس قرآن دے کر ملت کے نوجوانوں کی اصلاح کی تھی۔عبدالوکیل باباصاحب،ماہر معاشیات، جنہوں نے ا ردو زبان میں گھریلو مصنوعات اورچھوٹی صنعتوں پر دستاویزی کتاب لکھی۔تاکہ ملت کے نوجوان معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں،موصوف کلکتہ سے شائع ہونے والے مقبول عام جریدے"رہبر صنعت وتجارت" کے مشاورتی بورڈ کے رکن بھی رہے ہیں۔ممتازشاعرڈاکٹرمعیدجاوید،صدرشعبہ اردو،عثمانیہ یونیورسٹی،نویداقبال،ایم اے مقیت سابق اراکین بلدیہ،ایم اے صمیم ایڈیٹر روزنامہ " آج کا نظام آباد"احمدعبدالمجید صاحب مرحوم امیر مقامی جماعت اسلامی،کے علاوہ دیگر بہت سے افراد ہیں جنہوں نے کاروبار اور دیگر شعبہ جات میں اپنا نمایاں مقام بنایا ہے۔تنظیم اصلاحِ معاشرہ وازالہ منکرات کے روح رواں جناب خادم ایم اے نعیم صاحب کا ذکر کے بغیر باباپور کی تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔ ملک کی یہ منفردتنظیم ہے جسے تمام مکتبِ فکر کے علماء کرام کا تعاون حاصل ہے۔اصلاح معاشرہ کے لئے کی ان کی جدوجہد قابل ستائش ہے۔جس کے لئے ایک الگ سے مضمون درکار ہے۔ ضلع نظام آباد میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کو فعال کرنے میں عبدالمعیدصدیقی نے کلیدی رول اداکیاتھا۔ دین حنیف کی سربلندی کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ان کی پوری زندگی جدوجہد سے بھرپور تھی۔بلاشبہ وہ ایک شجر سایہ دار تھے،پیارومحبت اورہمدردی کا گھنا سایہ،جس کی شاخیں دور دورتک سایہ دیتی ہیں ۔ عبدالمعیدصدیقی میں تو ایک خاص صفت تھی جو میں نے اپنے تجربے میں بہت کم لوگوں میں پائی ہے۔انہیں امت مسلمہ خصوصاَ نوجوانوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے لئے ہمیشہ متفکر پایا۔ان کا نظریہ تھا کہ نوجواں قوم وملت کے معمار اور مستقبل کے مینار ہوتے ہیں۔ ان ہی کے ہاتھوں قوم و ملت کا مقدر سنورتا ہے۔ اگر بروقت ان کی رہنمائی نہ کی جائے تو ان کی قوت و صلاحیت غلط ہاتھوں میں پڑ کر گمراہی کا شکار ہوسکتی ہے۔وہ اپنی سائیکل کے ذریعہ 30 تا 40 کیلومیٹر کا سفر طئے کرکے مختلف قصبات میں جاتے تھے۔اور وہاں کے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے تھے۔درحقیقت وہ امت کے نوجوانوں کو دین ودنیا میں کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔وہ باوجود معاشی طورپر کمزور ہونے کے مستحقوں کے لئے اپنے ساتھ ٹفن اور فروٹ لے جاتے تھے۔وہ پریشان حال لوگوں کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔ان کی پوری زندگی جدوجہد سے بھرپور تھی۔ان کا سب سے بڑا وصف ان کے وجود سے پھوٹتا بے پایاں خلوص تھا۔ان کی گفتگو میں ذہانت کی پختگی اور قرآن و حدیث پر گہرے غوروفکر کی عکاسی کرتی تھی ۔ سادگی بے نیازی اور قناعت ان کے چہرے سے جھلکتی تھی۔انہوں نے ہمیشہ سادہ غذا کھائی ،انتہائی کم قیمت کا سادہ کپڑاپہنا۔اپنے حصے کی غذا بھی دوسروں کوکھلانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ دور دراز کے قصبات سے مسلم و غیر مسلم غریب و نادار طلباء ان سے ملاقات کے لئے آتے تو انہیں پیٹ بھر کھانا کھلاتے ۔ان کو اپنی پسند کے مہنگے کپڑے نہ صرف دلواتے بلکہ سلائی کی رقم بھی اپنی جیب سے اداکرتے۔واپسی کا بس کا کرایہ بھی چپکے سے ان کی جیب میں ڈال دیا جاتا۔کبھی انہوں نے اپنے لباس پر توجہ نہیں دی۔کیونکہ وہ اپنے لئے "پرہیزگاری کا لباس" بہتر سمجھتے تھے۔ عبدالمعیدصدیقی اعلیٰ تعیم یافتہ تھے۔وہ چاہتے تو ملک و بیرون ملک بہترین ملازمت حاصل کرکے لاکھوں روپے کماسکتے تھے۔لیکن انہوں نے اپنے وطن عزیز میں رہ کر قوم وملت کی خدمت کو ترجیح دی۔ایک موقع پر انہوں نے برادران عبدلروف،امیر جماعت ،ریاض ،ملک ذاکر، عرعر(سعودی عرب) اور خاکسار کے سعودی عرب چلے جانے پر بھی ناخوشی کا اظہارکیا تھا۔وہ قوم کی جہالت تاریکی و پستی کو دورکرنے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے آخری وقت تک مصروف عمل رہے۔کئی غیرمسلم و مسلم مستحق طالب علموں کو انہوں نے اپنی جیب سے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ ان کے خرچ سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء آج کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

 دنیا سے بے نیازی ان کی اعلیٰ صفت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ ایک اطمینان و سکون میں نے ہمیشہ عبدالمعید صدیقی کے چہرے پر دیکھاجو آج کے زمانے میں ناپید ہے۔شاید کردار کی روشنی تھی ،جو سکوں بن کر ان کے چہرے پر ٹھہر گئی تھی۔یا نور کا ایک ہالہ تھا جو بندے کو اپنے خاص اوصاف کی بناپر اللہ سبحان تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ایک موقع پر کسی نے ایک دلچسپ بحث چھیڑی کہ نظام آباد میں بے لوث خدمات انجام دینے والے افراد کون کون ہیں ؟ جناب ایم اے مقیت سابق میونسپل کارپوریٹر، جناب سعداللہ، سکریٹری مالا پلی ویلفئر سوسائٹی اور راقم الحروف نے بلا تامل عبدالمعید صدیقی کا نام لیا۔ جب کہ وہ بقید حیات تھے۔ان کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے ہم سب کی آنکھیں بھر آئیں۔جن کے اعمال سچے ہوں جن کی نیت صرف خالق حقیقی کی خوشنودی ہو۔ بارگاہ ایزدی میں ان کی قبولیت یقینی ہوتی ہے۔ عبدالمعیدصدیقی کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حسن سیرت سے نوازا تھا بلکہ حسن سیرت،حسن سلیقہ، حسن انتظام،ذہانت فہم وفراست سے بھی مالا مال کیا تھا۔اللہ کی ان پر خاص رحمت تھی۔شعور کی پختگی ایسی کہ بہت کم عمری میں ان کے فیصلے درست ثابت ہوئے تھے۔اپنے چھوٹےبھائی عبدالحمید صدیقی کو جذبہ خدمت خلق کے تحت عملی سیاست میں اتارا۔اور بحیثیت میونسپل کارپوریٹرکامیاب کروایا۔آج کی عملی سیاست سودے بازی اور حقیر مفادات کے لئے ضمیر فروشی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن عبدالحمید صدیقی نے کم عرصہ میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔ تصرف وتغلب، جھوٹ و فریب کے اس سمندر میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچائے رکھا۔قوم وملت کے لئے کچھ کرنے کی تڑپ شاید انہیں اپنے والدمحترم اور بھائی سے ورثہ میں ملی تھی۔قوم کی سیاسی سماجی تعلیمی معاشی ترقی کے لئے ہمیشہ کوچاں رہے۔تلگودیشم پارٹی سے دیرینہ وابستگی کے باوجودجب کانگریس نے مسلمانوں کے حق میں 4٪ تحفظات کا اعلان کیا تو انہوں نے ملی مفادات کی خاطر کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔سیاست ریڈرس فورم کے عہدیداروں مسرز عبدالحمید صدیقی مرحوم،شفیق احمد(مرحوم)سابق رکن اردواکیڈمی ،صابرعلی سابق کارپوریٹر،جمیل نظام آبادی،ایم اے ماجد ،جرنلسٹ،سیداحمد بخاری،وحیدرومانی،شیخ علی صابری،صدر فیض العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی،کے علاوہ راقم الحروف کی نمائندگی پر جب ایڈیٹر روزنامہ "سیاست" نے اعلان کیا کہ وہ ادارہ سیاست کی جانب سے نظام آباد میں مسلم میٹرنٹی اسپتال بنانے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ زمین فراہم کی جائے، عبدالحمید صدیقی مرحوم نے زمین کے حصول کے لئے بھرپور کوششیں کیں۔تمام کارپوریٹس سے انہوں نے فرداَ ملاقات کرتے ہوئے بلدیہ کی خالی زمین کے حصول کے لئے راہ ہموار کی۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غیر مسلم ڈاکٹرز مسلم خواتین کا استحصال کرتے ہیں اور نظام آباد میں بھی حیدرآباد کے مسلم میٹرنٹی اسپتال کے طرز پر ایک عصری اسپتال قائم کیا جائے۔بعد میں نظام آباد کے اس دیرینہ مسئلہ کو فوری حل کرنے کے لئے جناب ایس اے علیم ،قائد ٹی آر ایس، و چیئرمین ریڈکو،نے اپنی قیمتی اراضی اسپتال کی تعمیر کے لئے دینے کا اعلان کیا۔جناب زاہد علی خان مدیر "سیاست" اور جناب ایس اے علیم صاحب سے میری خواہش ہے کہ اس اسپتال کے کسی حصہ کو عبدالحمید صدیقی کے نام سے موسوم کریں۔مرحوم کے کارناموں کو یہ بہترین خراج ہوگا۔ 

 بہرکیف! وہ چراغ بجھ گئے جو ہزاروں لوگوں کے ذہن و فکر میں شعور کے چراغ جلاتے تھے۔ان کی جدائی کا درداور ان کے چلے جانے کا غم آج بھی تازہ ہے۔نظام آباد کی تاریخ کا غالبا سب سے بڑا جلوس جنازہ تھا۔ جس میں بلا لحاظ مذہبی وابستگی لاکھوں لوگوں نے بادیدہ نم ،صدیقی برادران و ان کے افراد خاندان کو سپردخاک کیا۔ اس سے انکار نہیں کہ یہ لوگ موت کی لذت سے آشنا ہوگئے۔اور ہر نفس کو بھی اس سے آشنا ہونا ہے۔ان کی موت بلاشبہ دعوت فکر بھی دیتی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔ان کی کمی اہلیان نظام آباد کو ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ ہم سب کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو اسی خلوص و عقیدت کے ساتھ آگے بڑھاکر ان کی روح کو سکوں پہنچائیں۔ 

 خالقِ حقیق ان سب کی قبروں کو نور سے بھردے۔ان کے درجات کو بلند کرے۔آمین 

***

******

مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی

( روزنامہ"سیاست"اورسہ روزہ"دعوت" دہلی میں شائع شدہ احقر کا مضمون)

No comments:

Post a Comment