یعقوب سروش:
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
اکثر کتابوں میں پڑھا تھا، زمین پر فرشتے بھی آباد ہوتے ہیں وہ نیکی اور پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کی زندگی تعمیری فکر کا اعلی نمونہ ہوتی ہے نا مساعد حالات میں بھی حصول مقصدکے لئے اپنی توانائیاں صرف کر دیتے ہیں انہیں موت بھی شکست نہیں دے سکتی ۔جب یہ داغ مفارقت دے جاتے ہیں تو ان کے اعمال اور ان کے کارنامے عام آدمی کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں ان کے کردار کی روشنی نسلوں کو فیض یاب کرتی رہتی ہے۔ ہم اہلیان ضلع نظام آباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے اس فرشتے کو دیکھاہے۔آرمورجیسے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اپنی خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ادب، صحافت ،خطابت ،تعلیم،اور دین حنیف کی سربلندی کیلئے ان کی سچی تڑپ ان کی زندگی کے کس پہلو پر روشنی ڈالی جائے ؟مجھ جیسے طفلِ مکتب کے لئے ممکن نہیں کی ان کی بے لوث خدمات کا مکمل طور پر احاطہ کروں ، کیونکہ نابغہءروزگار شخصیتیں اپنے تعارف کے لیے گہرا مشاہدہ اور گہری علمی بصیرت مانگتی ہیں ۔
آفس میں روز کی طرح کام نمٹا کر جب میں میں انٹرنیٹ پر اخبار کا مطالعہ شروع کیا تو یہ روح فرسا خبر نظروں سے گزری کہ یعقوب سروش صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ... مجھے یقین نہیں آیا ،ایک جھٹکا سا لگا ، ان کا محبت و خلوص کا اظہار کرتا چہرا آنکھوں میں گھوم گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اپنا بچھڑ گیا ہو اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ رشتوں کا تقدس بھی عجیب ہے بعض اوقات انسان خونی رشتوں کو اہمیت نہیں دیتا لیکن جب یہ اخلاص کے رشتے روحانیت کی آمیزش میں رچ بس جاتے ہیں تو خونی رشتے بھی پھیکے پڑ جاتے ہیں یعقوب سروش صاحب سے کچھ اس قسم کا رشتہ استوار ہوا تھا۔
جب ہم ہائی اسکول میں ذیر تعلیم تھے وہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر کے عہدے پر فائز تھے۔بڑا رعب و دبدبہ تھاان کا۔جب وہ انسپکشن کے لئے آتے توپورے اسٹاف پر ایک خوف کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔۔ اسی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں جب ہم نے پہلی باران سے ملاقات کی تووہ انتہائی خندہ پیشانی سے ملے۔غالَبا جمیل نظام آبادی نے تعارف کروایاتھا۔بڑےخوش ہوئےکہ کم عمری میں معیاری رسالوں میں چھپتے ہو۔ فرمانے لگے گے قرآن کریم میں قلم کا ذکر ہے یہ بہت بڑی امانت اللہ تعالی نے تمہیں سو نپی ہے۔تمہارا فرض ہے کہ اعلی مقاصد کی جستجو میں لگے رہو ۔اس کے بعد ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کی شخصیت کے کئی پہلووں کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔چہرے پر ہمیشہ شفقت بھری مسکراہٹ۔گفتگو میں بلا کی ذہانت وبردباری، سلجھا ہوا تعمیری ذہن، ماتھے پر ملت کی حقیقی فکر۔ ہمیشہ شیروانی ذیب تن کیا کرتے تھے،وقت کی پابندی کواہمیت دیتے تھے بحالت مجبوری وعدہ نہیں نبھا سکتے تھے تو قبل از وقت اطلاع دیتے تھے۔ دورانِ گفتگو اکثر ملت کے مسائل کو لے کر آبدیدہ ہوجاتے تھے۔کہتے تھے کہ وسعت نظری کا فقدان ملت کو لے ڈوبا ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ جو جدید ٹکنالوجی میں مہارت رکھتا ہے۔اسلام کے اعلیٰ اقدار سے واقف نہیں ہے،اور جو اسلام کی سربلندی کے لئے کمربستہ ہیں،جدیدعلوم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے ایک خلیج سی حائل ہوگئی ہے۔جو ملت کو متوازن ترقی میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی دنیا کے تمام مسائل کا حل بحثیت داعی امت مسلمہ کے پاس ہونا چاہئے۔دنیا کا کوئی دستور حقوق انسانی کا نقیب ومحافظ بنا ہے تو وہ ہے قرآن اورسیرت محمدی ﷺ۔اگر آج کی امت مسلمہ گلشن سیرت کے گل ہائے عطربیزسےاپنے کردار کو معطر کرلے توپوری دنیا میں مسلمانوں کی سیرت کے ڈنکے بجنے لگیں گے۔دین تبلیغ کی یہ بہترین مثال ثابت ہوگی۔
آفس میں روز کی طرح کام نمٹا کر جب میں میں انٹرنیٹ پر اخبار کا مطالعہ شروع کیا تو یہ روح فرسا خبر نظروں سے گزری کہ یعقوب سروش صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ... مجھے یقین نہیں آیا ،ایک جھٹکا سا لگا ، ان کا محبت و خلوص کا اظہار کرتا چہرا آنکھوں میں گھوم گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اپنا بچھڑ گیا ہو اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ رشتوں کا تقدس بھی عجیب ہے بعض اوقات انسان خونی رشتوں کو اہمیت نہیں دیتا لیکن جب یہ اخلاص کے رشتے روحانیت کی آمیزش میں رچ بس جاتے ہیں تو خونی رشتے بھی پھیکے پڑ جاتے ہیں یعقوب سروش صاحب سے کچھ اس قسم کا رشتہ استوار ہوا تھا۔
جب ہم ہائی اسکول میں ذیر تعلیم تھے وہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر کے عہدے پر فائز تھے۔بڑا رعب و دبدبہ تھاان کا۔جب وہ انسپکشن کے لئے آتے توپورے اسٹاف پر ایک خوف کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔۔ اسی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں جب ہم نے پہلی باران سے ملاقات کی تووہ انتہائی خندہ پیشانی سے ملے۔غالَبا جمیل نظام آبادی نے تعارف کروایاتھا۔بڑےخوش ہوئےکہ کم عمری میں معیاری رسالوں میں چھپتے ہو۔ فرمانے لگے گے قرآن کریم میں قلم کا ذکر ہے یہ بہت بڑی امانت اللہ تعالی نے تمہیں سو نپی ہے۔تمہارا فرض ہے کہ اعلی مقاصد کی جستجو میں لگے رہو ۔اس کے بعد ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کی شخصیت کے کئی پہلووں کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔چہرے پر ہمیشہ شفقت بھری مسکراہٹ۔گفتگو میں بلا کی ذہانت وبردباری، سلجھا ہوا تعمیری ذہن، ماتھے پر ملت کی حقیقی فکر۔ ہمیشہ شیروانی ذیب تن کیا کرتے تھے،وقت کی پابندی کواہمیت دیتے تھے بحالت مجبوری وعدہ نہیں نبھا سکتے تھے تو قبل از وقت اطلاع دیتے تھے۔ دورانِ گفتگو اکثر ملت کے مسائل کو لے کر آبدیدہ ہوجاتے تھے۔کہتے تھے کہ وسعت نظری کا فقدان ملت کو لے ڈوبا ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ جو جدید ٹکنالوجی میں مہارت رکھتا ہے۔اسلام کے اعلیٰ اقدار سے واقف نہیں ہے،اور جو اسلام کی سربلندی کے لئے کمربستہ ہیں،جدیدعلوم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے ایک خلیج سی حائل ہوگئی ہے۔جو ملت کو متوازن ترقی میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی دنیا کے تمام مسائل کا حل بحثیت داعی امت مسلمہ کے پاس ہونا چاہئے۔دنیا کا کوئی دستور حقوق انسانی کا نقیب ومحافظ بنا ہے تو وہ ہے قرآن اورسیرت محمدی ﷺ۔اگر آج کی امت مسلمہ گلشن سیرت کے گل ہائے عطربیزسےاپنے کردار کو معطر کرلے توپوری دنیا میں مسلمانوں کی سیرت کے ڈنکے بجنے لگیں گے۔دین تبلیغ کی یہ بہترین مثال ثابت ہوگی۔
یعقوب سروش صاحب ستمبر 1926 ءکو ضلع ورنگل کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول سے حاصل کی ۔۔ بعدازاں عثمانیہ یونیورسٹی سے بدرجہ اول ایم اے اور بی ایڈ کامیاب کیا۔ ان کی تربیت میں ان کے استادمحترم مولانا حامدعلی صاحب نائب امیر جماعت اسلامی ہند کاخاص رول رہا ہے ۔عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔بحثیت مدرس شروعات کی پھر محکمہ تعلیمات میں ڈپٹی ایجوکیشن آفیسرو ڈسٹرکٹ سروے آفیسر کےعہدےپرفائزہوئے۔ 1983ء سبکدوشی کے بعد بھی درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہا۔زائداز دس سال آپ آغاخاں ہائی اسکول اردووانگلش میڈیم کے پرنسپال کے عہدے پر فائز رہے اور اپنی خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔آرمور کی معروف فلاحی تنظیم مرکزی کمیٹی کی دو مرتبہ صدارت پررہنے کا انہیں اعزازحاصل ہے۔ حکومت آندھراپردیش نے ان کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2009ء میں اردواکیڈمی کی جانب سے ڈاکٹرزور ایوارڈ سے نوازتھا۔
2002ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کی بطور امیر مقامی آرمور بھی خدمات انجام دیں اور دینی ملی ،وعلمی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ وہ مسجدشوکت السلام آرمور کے کئی برس تک امام وخطیب رہے تھے۔ ایک مرتبہ راقم کو مسجد رحمانیہ زراعت نگر آرمورمیں ،درس قرآن سننے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے سورہ عصر کی ترجمانی کی اوربڑ ے ہی فکری و علمی انداز میں آج کے حالات کو پیش کیا تھا کہ کس طرح انسان خسارے میں پڑا ہوا ہے۔ وہ نہ صرف قرآن سے دلی محبت رکھتے تھےبلکہ قرآن کا بہترین ادراک و فہم بھی رکھتے تھے ۔ ۔ بلاشبہ ان کی سیرت ،انکا کردار ،ان کا عمل ایک سچے مومن کا تھا ۔
علامہ اقبال مولانا مودودی سے والہانہ عقیدت ان کی تحریروں سے جھلکتی تھی۔ ان دو شخصیات پر انہوں نے کئی فکرانگیز مضامین لکھے ۔ علامہ اقبال کی اس فکری بلندی کو چھونے کی تڑپ ہی نے انہیں ماہنامہ "بساط ذکر وفکر" کی اجرائی پر پرمائل کیا تھا۔وہ ساری عمر ،علامہ اقبال کے ان خیالات کو پیش کرتے رہے:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
ان کی تحریریں انتہائی شگفتہ دل کو چھو لینے والی اسلامی احساسات کی ترجمان ہوتی تھیں تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر میں بھی انہیں ملکہ حاصل تھی ۔ان کےمضامین ہندوپاک کے معیاری رسائل کی زینت بنتے تھے.
غالبا 1966 ء میں جب وہ سعادت حج سے فیضاب ہوئے تھے ان دنوں مکہ مکرمہ میں مقیم ممتاز عالم دین مولانا مودودی سے ملاقات کا بھی انہیں شرف حاصل ہوا تھا اپنے مضمون" بطل جلیل سے ایک ملاقات"میں بڑے خلوص واپنائیت سے ان کاذکر کیا تھا ۔
سعادت حج کی روداد کو انہوں نے اپنی معروف کتاب " ایک منزل کئی قافلہ" میں قلمبند کیا۔اس کتاب کی ادبی اور مذہبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی اور ملک کے مختلف اخبارات ورسائل میں اس کتاب پرتبصرے شائع ہوئے معروف اسلامی پبلیکیشنز ادارہ الحسنات دہلی، نے اس کتاب کے فروخت کا ریکارڈ قائم کیا۔نامساعد حالات کےباوجود ماہنامہ"بساط ذکروفکر" پابندی سے شائع کرتے تھے ۔انہیں ہندوپاک کے جید علماء کرام اور ادبا کا تعاون حاصل تھا۔ ان کے قلم میں بلا کی ندرت تھی ،تحریر کی شگفتگی ایسی کہ بہت سے تاریخی واقعات کا پس منظر بہت ہی سلجھے ہوئے انداز میں رقم کیا ہے ۔ن کی تصنیفات میں "کچھ غم دنیا اور کچھ غم عقبیٰ" ، پیرہن کی سرخی سے پیرہن کی خوشبو تک"،"عیسیٰ ابن مریم" اور مطالب قرآن شامل ہیں۔ عیسیٰ ابن مریم کا کئی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اور مطالبِ قرآن کو دینی حلقوں میں آج بھی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مطالب القرآن نا صرف ہندوستان بلکہ پاکستان کی مساجد میں تراویح کے بعدآج بھی سنائی جاتی ہے۔
بلاشبہ وہ انتہائی قابل اور اسلامی فکر رکھنے والی شخصیت تھی. ان کا تخلیقی سفر نصف صدی پر محیط ہے۔ربع صدی سے پابندی سے ماہنامہ"بساط" شائع کرتے آرہے تھے انہیں غیر معمولی صلاحیتیں خالق برتر نے ودیعت کی تھیں۔ ان کے قلم میں گہرائی اور گیرائی کا سمندر موجزن رہتا تھا ایسی شخصیتیں خال خال پیدا ہوتی ہیں ۔ اسلام کایہ خاموش داعی 2/فروری 2012 ءکو اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔
عبدالمعید صدیقی کے انتقال کے بعد اہلیان نظام آباد کو ایک اورصدمہ سے دوچارہونا پڑا ہے۔سنجیدہ فکررکھنے والےاحباب اس خلاء کو دیر تک محسوس کریں گے ۔ میں خالق کائینات سے عجز و انکساری کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ مرحوم کے بشری لغزشات کو درگزرکرتے ہوئےان کی قبر کو نور سے بھردے۔ان کی دینی خدمات و تخلیقات کو نجات کا ذریعہ بنا دے آمین
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
( پروین شاکر)
****
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
روزنامہ "اعتماد" میں ، یادرفتگاں کے تحت شائع شدہ میرا مضمون
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
روزنامہ "اعتماد" میں ، یادرفتگاں کے تحت شائع شدہ میرا مضمون
No comments:
Post a Comment