اطہر معین: اظہار حق و افشائے باطل کی صحافت کا امین - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

5.12.19

اطہر معین: اظہار حق و افشائے باطل کی صحافت کا امین


 اطہر معین:

 اظہار حق و افشائے باطل کی صحافت کا امین



قلم کی اہمیت سے کس کو انکار ہے ؟ خالق برتر نے قرآن مجید کی پہلی وحی کےذریعہ قلم کاذکر فرما کر اس کی عظمت کومسلمہ کردیاہے۔قلم وقرطاس قوموں کے عروج کے ضامن رہے ہیں۔ قلمی نگارشات معاشرے کوایک نئی سوچ و فکر عطا کرتی ہیں۔اگریہ نعمت کسی سنجیدہ فکر نوجون کو مل جائے تواسکی صلاحتیں قوم وملت کے لئے سنگ میل ثابت ہو تی ہیں۔معروف صحافی اطہرمعین کا شمار بھی اسی قبیل کے نوجوانوں میں ہوتا ہے۔اس فرزندنظام آباد نے بہت کم عمری میں ترقی کے منازل طئے کئے ہیں۔اردو سے انگریزی صحافت تک کاان کا یہ دلچسپ سفر ملاحظہ فرمائیں۔جو قابل تقلید بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔ 
 معروف شاعررہبرجونپوری کے یہ اشعار ان کے قلم کی ترجمانی کرتے ہیں:

 قلم خاموش ہے الفاظ کی تاثیر بولے ہے 
 ہماری صفحۂ قرطاس پر تحریر بولے ہے
 حقیقت مٹ نہیں سکتی بدل دینے سے تاریخیں
 ہر اک فن میں ہمارا حسن عالم گیر بولے ہے

 (مجیدعارف) 

***

اطہر معین اردو صحافت کا ایک منفرد نام ہے۔ یہ ایک ایسا صحافی ہے جو جتنا معروف و مشہور ہے اتنا ہی گمنام اور مخفی بھی ہے۔ بہت سے لوگ ان کے چہرہ سے ناآشنامگر اسلوب تحریر سے خوب واقف ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اطہر معین ہی نے اردو میں تفتیشی صحافت کا آغاز کیا ورنہ اردو صحافت میں کسی اسکینڈل یا اسکام کی کھوج کا تصور تھا نہ اب ہے۔ اردو صحافت میں صرف وقوعات یا پھر سیاسی، ملی و مذہبی قائدین کے بیانات کو ہی جگہ دی جارہی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ پر کامل اعتماد اور متبادل ذرائع سے حقائق کا پتہ چلانے کی کوششیں نہ کئے جانے کے باعث اردو اخبارات بھی اغیار کے ایجنڈہ پر کاربند ہیں مگر اس صحافی نے اجتہادی و انقلابی رجحانات کو پروان چڑھایا اور ایسے ایسے حقائق کو منظر عام پر لایا جس سے بہت کم لوگ واقف تھے۔

 اطہر معین کو لڑکپن سے ہی لفظوں سے تال میل رہا، پھر ذوق مطالعہ، نئے جہانوں کی سیر کی جستجو اور ان سب سے بڑھ کر انسانیت کے دکھ کو سمجھنے کی خوبی نے انہیں ممتاز بنادیا اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انسان کی آرزوئیں حسرتوں میں بدل جاتی ہیں۔ اطہر معین کو سچ بولنے کا ’جنون‘ رہا ہے۔ ان کو شائد اس بات کی خبرنہیں تھی کہ سچ کا انجام یا زہر کا پیالہ ہوتا ہے یا پھر درخت خرمہ پر سولی دی جاتی ہے۔ اگر ان کو اس بات کی خبربھی تھی تو وہ درخت خرمہ کی آبیاری کرتے رہے۔ انہوں نے 25 برسوں کے دوران کئی صحافتی اداروں میں خدمات انجام دیں اور اپنی تحریروں کا جادو جگایا۔ ان کی تحریروں میں جو بے باکی و صداقت ہے وہ ان کو شروع ہی سے نمایاں کر گئی چنانچہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ، جامعہ ازہر میں اوبامہ کے خطاب کے پس پردہ امریکی عزائم کے پردوں کو چاک کرنا، امریکہ کے اقتصادی بحران کی پیش قیاسی اور اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف سازشوں کو عریاں کرنا، مکہ مسجد بم دھماکہ کے سازشیوں اور اس کے پس پردہ محرکات کو بے نقاب کرنا اور اوقافی اسکامس کا پردہ فاش کرناان کے اہم کارنامے ہیں۔ اسلام اور مسلم امہ کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کی انہیں یا تو پہلے سے ہی بھنک لگ جاتی ہے یا پھر حالات کے بدلتے رخ کو بھانپ لے کر سازش کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اطہر معین نے قانون وقف میں ترمیم کے ضمن میں عوامی نمائندوں اور صحافتی جریدوں کو جتنا مواد فراہم کیا یہ اعزاز شائد کسی اور کو حاصل نہیں رہا۔ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہیکہ وہ اپنے ارادہ میں بہت زیادہ استقامت رکھتے ہیں جو آج کے دور میں کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ وہ ڈھلتے سورج سے عبرت حاصل کرتے ہیں لیکن ابھرتے سورج کی پرستش نہیں کرتے۔ وہ اظہار حق و افشائے باطل کی صحافت کے امین ہیں۔

 یہ اطہر معین ہی ہیں جنہوں نے اوقاف کے بارے میں ملت کو آگاہ کیا اور اوقافی جائیدادوں کی تباہی و بربادی کے تئیں شعور بیدار کیا۔ اطہر معین کی تحریروں سے قبل اوقاف کی دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کے بارے میں عام مسلمان تو درکنا رمفکرین ملت بھی کماحقہ آگاہ نہیں تھے مگر اس صحافی نے اربوں کھربوں مالیت کی اوقافی جائیدادوں کو فروخت کرنے والے متولیوں، حکومتوں اور قبضہ کرلینے والوں کے خلاف ایک محاذ کھول کر رکھ دیا تھاجس کے نتیجہ میں سابقہ حکومتوں کی بنیادیں دہل گئیں اور کئی سفید پوش ہستیوں کے چہروں سے نقاب اتر گیا، سجادگی کی مسند پر متمکن لوگوں کی اصلیت آشکار ہوگئی۔ آج بھی ان کی یہ مہم جاری ہے۔ اوقاف کے اسکینڈلس کو یکے بعد دیگر منظر عام پر لائے جاتے رہنے سے سیاسی جماعتیں بھی خطرہ محسوس کرنے لگی تھیں۔ اطہر معین ہی کی تحریروں کا اثر تھا کہ وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور صدر کانگریس سونیا گاندھی نے حیدرآباد کے تین اخبارات کے مدیروں کو خصوصی وقت دیا اور ان سے اوقافی جائیدادوں کی صیانت کا وعدہ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرسکے۔ درگاہ حسین شاہ ولیؒ، درگاہ حضرت بابا شرف الدینؒ، درگاہ حضرت مخدوم بیابانیؒ آلور،عاشور خانہ علی سعد، درگاہ حضرت سید شاہ اسحٰق مدنیؒ وشاکھاپٹنم، جامعہ نظامیہ، درگاہ حضرت حکیم شاہ باباؒ اور کئی دیگر اوقافی اداروں کی جائیدادوں کی صیانت میں ان کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جاریہ صدی کے پہلے دہے میں جب ملک میں جا بجا بم دھماکے ہونے لگے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے ان دھماکوں کے لئے نام نہاد مسلم تنظیموں اور دین پر عمل پیرا مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا تو ابنائے وطن سمیت مسلمان بھی یہی سمجھنے لگے تھے کہ شائد یہ کچھ گمراہ مسلم نوجوانوں کی کارستانی ہے مگر اطہر معین نے ان بم دھماکوں پر بے لاگ تبصرے کرتے ہوئے پولیس کی گھڑی ہوئی کہانیوں کا پول کھولنا شروع کیا اور یہ ثابت کیا کہ یہ دھماکے مسلم نوجوانوں کی کارستانی نہیں بلکہ ان افرادکی سازش ہے جن پر ملک کی سلامتی کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ خوف و ہراس کے اس ماحول میں جب کہ ملت کی بڑی بڑی تنظیمیں اور سرکردہ قومی قائدین بھی ان بے قصور نوجوانوں کی تائید و حمایت کرنے میں خطرہ محسوس کررہے تھے اس وقت اطہر معین نے مکہ مسجد بم دھماکہ کی اپنے طور پر متوازی تحقیقات کرتے ہوئے چونکادینے والے انکشافات کئے تھے۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر بھی وہ کھل کر لکھنے لگے اور ایک ایسا ماحول تیار کیا کہ دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کئے گئے مسلم نوجوانوں کی بے گناہی کو سبھی تسلیم کرنے لگے اور قومی سطح کی حقوق انسانی تنظیموں نے حیدرآباد میں سہ روزہ پیپلز ٹریبونل کا اہتمام کیا جس کے بعد سے ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ طویل عرصہ تک روک دیا گیا۔ اسی طرح بھینسہ کے قریب وٹولی کے مقام پر ایک ہی خاندان کے 6 افراد کو زندہ جلادئیے جانے کے واقعہ میں ملوث خاطیوں کی جانب انہوں نے ہی نے نشاندہی کی تھی جس کے بعد پولیس نے ان خاطیوں کو گرفتار کرلیا۔ سائنس و طب کے شعبہ میں بھی ان کی صحافتی تحقیقات غیر معمولی اور انکشافات چونکادینے والے رہے ہیں۔معاشرتی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر رہتی ہے اور وہ سماج میں پنپنے والی برائیوں اور خرابیوں کی اپنے قلم سے جراحی کرتے ہیں۔

 ویج بورڈ کے مطابق تنخواہوں کے مسئلہ پر جب ادارہ سیاست نے تمام ملازمین سے جبری استعفیٰ حاصل کرلیا اور انہیں دوبارہ کنٹراکٹ کے اساس پر ملازمت کی پیشکش کی تو اطہر معین ہی واحد صحافی تھے جنہوں نے انتظامیہ کے فیصلہ کے آگے خودسپردگی اختیار کرنے کی بجائے انتظامیہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا اور ان کی یہ جدوجہد ہنوز جاری ہے۔ ادارہ سیاست سے تعلق ختم ہوجانے کے بعد انہوں نے ’البلاد‘ کے نام سے نہایت ہی دیدہ زیب اور معیاری ہفتہ وار کا اجراء عمل میں لایا مگر بدقسمتی سے مالی تنگی کے باعث وہ اسے مسدود کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اردوزبان ہی کی طرح وہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور یہ عقدہ اس وقت کھلا جب دکن کے معروف انگریزی روزنامہ ’دکن کرانیکل‘ میں ان کی تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ اردو خبررساں اداروں نے اس صحافی کی قدر نہیں کی۔ اردو صحافت کو 25 برس تک سینچتے رہنے کے بعد یہ صحافی کچھ وقت کے لئے خاموش ہوگیا تھا مگر دکن کرانیکل کے انتظامیہ نے اس صحافی کو ضائع ہونے نہیں دیا اور انہیں اپنے ادارہ کے لئے لکھنے کی پیشکش کی۔ اس طرح وہ اکتوبر 2018 سے انگریزی صحافت میں اپنی ایک نمایاں شناخت بنائے ہوئے ہیں۔

 اطہر معین نے اپنے صحافتی کیریر کا آغاز دور طالب علمی سے ہی کردیا تھا جب وہ ممتاز کالج میں زیر تعلیم تھے۔ ابتداء میں وہ اردو کی قدیم نیوز ایجنسی ’دکن نیوز‘ سے وابستہ رہے اور جب 1995 ء میں تعلیمی سلسلہ ختم ہوگیا تھا وہ اپنے وطن نظام آباد لوٹ گئے جہاں انہوں نے کچھ وقت کے لئے نظام آباد مارننگ ٹائمز میں کام کیا اور پھر 1998میں ’روزنامہ ہمارا عوام‘ کے لئے نظام آباد کی نامہ نگاری حاصل کرنے جناب کے ایم عارف الدین سے ملاقات کی تو انہوں نے ان کی صلاحیتوں کو محسوس کرتے ہوئے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش کی۔ اس طرح وہ دوبارہ حیدرآباد منتقل ہوگئے اور پھر روزنامہ منصف میں شمولیت اختیار کی اور پھر روزنامہ سیاست سے 2004 تا2014 وابستہ رہے۔ وہ اکتوبر 2018 ء سے دکن کرانیکل سے وابستہ ہیں۔
***

No comments:

Post a Comment