میں ایک لڑکی ہوں ۔۔۔ مجھے عورت بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ قدرت نے مجھے وفاداری، ایثار و قربانی عطا کرنے میں بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں نے ماں بن کر اپنے جگر کے ٹکڑوں کی آبیاری میں اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین قربان کیا تو ایک بیٹی کے ناتے اپنے والدین کی دلجوئی کے لیے ہمیشہ سر تسلیمِ خم کیا، ایک بہن کے ناتے اپنے حصے کی خوشیاں، بخوشی اپنے بھائی کے قدموں میں رکھ دیں تو ایک بیوی بن کر جذبۂ ایثار کے کئی رنگ اپنائے۔ میں نے ازل سے اپنی خواہشوں کو صرف ایثار کا درجہ دے کر اپنی عظمت کی معراج کو پایا ہے۔ میرا وجود محبت کی جیتی جاگتی نشانی ہے۔آج جب اپنے بارے میں سوچتی ہوں تو دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔حضرت انساں نے ترقی کے نام پر مجھے ذلت ورسوائی کےسوا کچھ بھی نہ دیا....صابن سے لے کر شیونگ کریم کے اشتہار تک میری عریانیت کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ میری شرافت و حیا ء کی قبا تارتارہوگئی ہے۔میرے وجود کو صرف سیر وتفریح کا ذریعہ تصورکیا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے سبھی دانشوروں کا کہنا ہے کہ کہ انقلابی فکر عطا کرنے والی میں پہلی درسگاہ ہوں۔
دکھ اور تکلیف کے احساس سے میرا دل اس وقت خون کے آنسو رونے لگتا ہے جب رشتہ کے سلسلہ میں مجھے دیکھنے کے لئے آنے والے مجھے اس انداز سےٹٹولتے ہیں جیسے میں کوئی عورت نہیں گائے یا بکری ہوں۔دردورنج کی ایک ٹیس میرے دل و دماغ کو چیرتی رہتی ہے۔ایک عورت دوسری عورت کے درد کو نہ سمجھ سکی؟ میری ماں ساس کی شکل میں میرا سینہ چھلنی کرے .... میری بہن نند کے روپ میں مجھے طعنے دے.........
انسان وقت کے بے رحم ہاتھ کے مذاق کو سہہ سکتا ہے .... لیکن جب میرے احساسات کی امین میرے وجود کا حصہ میری ماں اور میری بہنیں سے اس قسم کا مذاق کریں تو بھلا آپ ہی بتائیے مجھے پھر کون تسلیم کریگا ؟؟
چودہ سو سال قبل جہالت وتاریکی کے مہیب سائے میں مجھے زندہ درگورکیاجاتاتھا۔میری عظمت و اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے مجھے میرا مستحقہ مقام دیا گیا۔
آسمانی صحیفہ نے میرے حساس دل کے کئی پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے مجھے مقدس مقام پر فائز کیا۔جس کی میں ازل سے ہی حقدارتھی.......
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جہاں دنیا سمٹ کر ایک کوزے میں سماچکی ہے۔ کمپیوٹر نے ترقی کی راہ میں نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ سوچ و فکرکو نئی تازگی عطا ہوئی ہے۔آج بھی مجھے اولاد نرینہ کی خاطر عالم وجود میں آنے سے قبل ہی بڑی حقارت سے ختم کردیا جاتا ہے۔رات کی سیاہ تاریکی میں مٹی کا تیل میری قسمت کا فیصلہ کرتا ہے تو کہیں جہیزکے لئے مجھے زندہ درگور کیا جاتا ہے۔... کتنی ہی بہنیں ہیں جو اپنے بالوں میں سفیدی کی چاندی لئے اپنے مجازی خدا کے انتظار میں پنی شادابی کھورہی ہیں .....صرف اس لئے کہ ان کے ہاں "حقیقی چاندی" نہیں ہے۔
میری خوبصورتی و نزاکت کی شاعروں نے چاند سے تشبیح دی ہے۔رات کی سیاہ تاریکی میں چاند جب اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والے جانوروں کے کرتوت دیکھتا ہے تو .....حساس چاند بادلوں کے اوٹ میں چھپ نہیں جاتا بلکہ احساسِ ندامت سے اپنا چہرہ چھپالیتا ہے۔
کبھی سوچا آپ نے.....
No comments:
Post a Comment